
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے منت مانی تھی کہ ”اگر میرا کام لگ گیا تو میں پانچ ہزار روپے اللہ کی راہ میں دوں گا“پھر اس کے بعد دعا کرتے ہوئے اور گھر والوں کے سامنے بھی میں نے کئی مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ اب اللہ کے فضل سے میرا کام لگ گیا تو میرے ذہن میں ایک سوال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جتنی بار میں نے الفاظ دہرائے، اتنی بار منت لازم ہوگئی ہو، جبکہ بار بار بیان کردہ الفاظ سے میرا مقصد الگ سے نئی منت ماننا نہیں تھا، بلکہ وہی پہلے والی منت ہی مراد تھی ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ پر منت کی ادائیگی کےلئے صرف ایک مرتبہ ہی پانچ ہزار روپے صدقہ کرنا لازم ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی عبادت (مثلاً:نماز، روزہ، صدقہ، حج وغیرہ) کی منت وقسم کے الفاظ کہنے کے بعد دوبارہ وہی الفاظ دہرائے جائیں، جن سے مقصود دوسری منت یا قسم نہ ہو، بلکہ پہلی کی ہی خبر دینا ہو، تو شرعاً اس بات کا اعتبار کیاجاتا ہے اور ایک کی ادائیگی ہی لازم ہوتی ہے اور چونکہ آپ نے بھی منت کے الفاظ دہرانےسے نئی منت کا قصد نہیں کیا، بلکہ اسی پہلی منت کی خبر دینا ہی مقصود تھا، لہذا آپ پر صرف ایک منت کی تکمیل ہی شرعاً لازم ہے۔
اللہ کی قسم اور کسی عبادت کی قسم کے حکم میں فرق کے حوالے سے درمختار ميں ہے:
و فی البحر عن الخلاصۃ و التجرید، و لو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه باللہ لا يقبل، و بحجة أو عمرة يقبل
ترجمہ: بحرالرائق میں خلاصۃ الفتاوی اور تجرید کے حوالے سے (تکرار کے ساتھ الفاظِ قسم و منت بولنے والے کے متعلق) ہے کہ اگر وہ یہ کہے کہ دوسرے جملے سے میری مراد پہلی بات ہی تھی، تو اللہ کی قسم اٹھانے کی صورت میں اس کی بات قابل قبول نہیں ہوگی، جبکہ حج یا عمرہ وغیرہ کی قسم اٹھانے کی صورت میں اس کی بات قبول کر لی جائے گا۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے:
لعل وجهه أن قوله "إن فعلت كذا فعلي حجة"، ثم حلف ثانيا كذلك، يحتمل أن يكون الثاني إخبارا عن الأول، بخلاف قوله "واللہ لا أفعله" مرتين، فإن الثاني لا يحتمل الإخبار فلا تصح به نية الأول، ثم رأيته كذلك في الذخيرة
ترجمہ:شاید مذکورہ مسئلے کی وجہ یہ ہے کہ کسی کایہ کہنا کہ "اگر میں اس طرح کروں تو مجھ پر حج لاز م ہے"، پھر دوبارہ اسی طرح حلف اٹھانا اس بات کا احتمال رکھتا ہےکہ یہ دوسرا پہلے کی خبر ہو(لہذا حلف اٹھانے والے کی بات مان لی جائے گی)۔ برخلاف اس کا دومرتبہ یہ کہنا کہ ”اللہ کی قسم میں یہ کام نہیں کروں گا“، کہ اس صورت میں دوسری مرتبہ والے الفاظ پہلے کی خبر دینے کا احتمال نہیں رکھتے، لہذا دوسرے الفاظ سے پہلے کی نیت کرنا درست نہیں ہوگا (لہذا اس کی بات نہیں مانی جائے گی)۔ پھر میں نے یہی مسئلہ ذخیرہ میں بھی دیکھا ہے۔(ردالمحتار علی الدر المختار، جلد 3، صفحہ 714، دار الفکر، بیروت)
اسی مسئلے کے حوالے سے بدائع الصنائع میں ہے:
فإن قال عنى بالثانية الأولى لم يصدق في اليمين بالله تعالى و يصدق في اليمين بالحج والعمرة والفدية و كل يمين قال فيها علي كذا والفرق أن الواجب في اليمين القرب في لفظ الحالف؛ لأن لفظه يدل على الوجوب وهو قوله "علي كذا" وصيغة هذا صيغة الخبر، فإذا أراد بالثانية الخبر عن الأول صح، بخلاف اليمين بالله تعالى، فإن الواجب في اليمين بالله تعالى ليس في لفظ الحالف؛ لأن لفظه لا يدل على الوجوب، وإنما يجب بحرمة اسم الله وكل يمين منفردة بالاسم فينفرد بحكمها، فلا يصدق أنه أراد بالثانية الأولى
ترجمہ: (تکرار کے ساتھ الفاظِ قسم و منت بولنے والا )اگر یہ کہے کہ میری مراد دوسرے جملےسے پہلی ہی تھی، تو اللہ کی قسم اٹھانے کی صورت میں اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، جبکہ حج، عمرہ، فدیہ کی قسم اور ہر اس قسم کی صورت میں جس میں یہ کہے کہ مجھ پر فلاں چیز لازم ہے، اس کی تصدیق کی جائے گی۔ فرق یہ ہےکہ عبادت کی قسم میں حلف اٹھانے والے کے الفاظ میں ہی واجب کا ذکر موجود ہے، کیونکہ اس کے اپنے لفظ "مجھ پر فلاں عبادت لازم ہے" ہی وجوب پر دلالت کررہے ہیں، اور یہ خبر کے صیغے ہیں، لہذا (عبادت کی منت ماننے کی صورت میں) اگر دوسری مرتبہ کے الفاظ سے پہلی منت کی خبر دینا ہی مراد ہوتودرست ہے، بر خلاف اللہ کی قسم اٹھانے کے، کہ اللہ کی قسم اٹھانے کی صورت میں حلف اٹھانے والے کے الفاظ میں واجب کا ذکر نہیں، کیونکہ اس کے لفظ وجوب پر دلالت نہیں کررہے، بلکہ اس کی ادائیگی تو اللہ پاک کے نام مبارک کی حرمت کے سبب واجب ہے، اور ہر وہ قسم جو اللہ کے نام کے ساتھ خاص ہو وہ اپنے حکم کے اعتبار سے بھی منفرد ہوتی ہے، لہذا(اللہ کی قسم اٹھانے کی صورت میں) اس کی اس بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی کہ دوسری مرتبہ کہنے سے بھی اس کی پہلی ہی قسم مراد ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 3، صفحہ 10، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
منت میں بھی یمین(قسم) کا معنی ہوتا ہے، جیساکہ بدائع الصنائع میں ہی ہے:
أن النذر فيه معنى اليمين؛ لأن النذر وضع لإيجاب الفعل مقصودا تعظيما لله تعالى، وفي اليمين وجوب الفعل المحلوف عليه
ترجمہ: منت میں یمین کا معنی پایا جاتا ہے، کیونکہ منت کسی کام کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے طور پر قصداً لازم کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے، اور قسم میں بھی محلوف علیہ ( جس چیز پر قسم کھائی گئی ہو) کا وجوب مقصود ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 92، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: PIN-7625
تاریخ اجراء: 12صفر المظفر1447ھ/ 7 اگست2025ء