صلوۃ التسبیح کی منت کا حکم

صلوٰۃ التسبیح کی منت کے متعلق چند احکام

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ چار رکعت صلوۃ التسبیح کی منت مانی تو کیا منت لازم ہوئی؟ اگر لازم ہےتو کیا چار نفل عام روٹین کے مطابق پڑھ لینا بھی کافی ہے یا تسبیحات کے ساتھ مکمل صلوۃ التسبیح کا طریقہ کار اپنانا ضروری ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

قوانینِ شریعت کے مطابق نماز وغیرہ عبادات میں وہ زائد اوصاف جو کہ فی نفسہ لازم نہ ہوں اور ان میں مشقت ہو، منت کے الفاظ میں ان کا ذکر کرنے سے وہ بھی لازم ہوجاتے ہیں، البتہ وقت لازم ہونے کے متعلق تفصیل کچھ یوں ہے کہ جس منت میں شرط مذکور ہو، اس میں وقت کی تخصیص لازم ہوجائے گی مثلاً کہا کہ اگر بیمار اچھا ہوجائے تو دس روپے خیرات کروں گا، تو اچھا ہونے سے پہلے ہی خیرات کردینے سےمنّت پوری نہ ہوگی، اچھے ہونے کے بعد پھر کرنا پڑے گا، جبکہ جگہ، روپے اور فقیروں کی  تخصیص بہر صورت بیکار ہے چاہے منت میں شرط مذکور ہو یانہ ہو۔

 زائد و غیر لازم اوصاف کے منت میں ذکر کرنے کی بنیاد پر لازم ہونے کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

(1) کسی نے نفل کھڑے ہوکر پڑھنے کی منت مانی، تو کھڑے ہو کر پڑھنا ہی واجب ہے کہ اس میں زیادہ مشقت ہے حالانکہ اگر کھڑے ہوکر پڑھنے کی قید نہ لگائے تو اختیار ہے کہ کھڑے ہوکر پڑھے یا بیٹھ کر پڑھے۔

(2) چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر مانی تو منت تبھی پوری ہوگی جب ایک سلام کے ساتھ ادا کرے ورنہ نہیں ہوگی جبکہ دو سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر مانی تو ایک سلام کے ساتھ پڑھنے سے بھی منت پوری ہوجائے گی۔ وجہ یہی ہے کہ ایک سلام کے ساتھ چار رکعت پڑھنے میں مشقت ہے جبکہ دو سلام کے ساتھ پڑھنے میں تخفیف ہے، لہذا جس میں زیادہ مشقت تھی، اس کی منت ماننے سے وہی لازم ہوگئی۔

(3) لگاتار روزوں کی نذر مانی تو لگاتار رکھنا ہی لازم ہےکہ اس وصف زائد میں مشقت ہے جبکہ لگاتار کی قید نہ لگائے یا الگ الگ روزے رکھنے کی نذر مانے تو اختیار ہے کہ لگاتار رکھے یا الگ الگ۔

(4) پیدل حج کرنے کی منت مانی تو واجب ہے کہ گھر سے طوافِ فرض تک پیدل ہی رہے حتی کہ اگر پورا سفر یا اکثر سواری پر کیا تو دَم لازم ہے اور اگر اکثر پیدل رہا اور کچھ سواری پر تو اسُی حساب سے بکری کی قیمت کا جتناحصہ اس کے مقابل آئے خیرات کرے۔ یونہی پیدل عمرہ کی منّت مانی تو حلق کروانے تک پیدل رہے۔

مذکور بالا مثالوں سے ابتدا میں عبادات میں وصف زائد کے لازم کے متعلق ذکر کردہ ضابطہ اچھی طرح واضح ہوگیا۔

اس کے مطابق صورتِ مسئولہ کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہے کہ صلوۃ التسبیح بنیادی طور پر نفل نماز کی منت ہے جو کہ لازم ہوگی۔ اور نفلوں میں تسبیحات کا اضافہ ایک وصفِ زائد ہے اور اس میں عام نوافل کے مقابلے میں مشقت بھی ہے، لہذا جس طرح کھڑےہو کر نماز پڑھنے کی نذر، چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر، لگاتار روزوں کی نذر اورپیدل حج و عمرہ کی نذر لازم ہوجاتی ہے اور ان سب صورتوں میں منت تبھی پوری ہوتی ہے جب منت میں ذکر کی گئی شرط کے مطابق ادائیگی ہو۔اسی طرح صورتِ مسئولہ میں بھی منت تبھی پوری ہوگی جب صلوہ التسبیح کے پورے طریقہ کار کے مطابق چار رکعت ادا کی جائیں گی ورنہ منت پوری نہیں ہوگی۔

جزئیات پیش خدمت ہیں:

مبسوط سرخسی و محیط برہانی و بدائع میں ہے:

واللفظ للاول "ومن نذر أن يصلي ركعتين قائما لم يجزه أن يقعد فيهما۔۔۔فهو التزام بالتسمية، وقد نص فيه على صفة القيام۔"

 جس نے دو رکعت کھڑے ہوکر پڑھنے کی نذر مانی تو اس کے لیے ان دورکعتوں کو بیٹھ کر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔۔یہ ذکر کرکے خود اپنے اوپر لازم کرنا ہے اور اس میں صفتِ قیام صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ (مبسوط سرخسی، ج1، ص208، مطبوعہ: بیروت)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"قال فخر الإسلام البزدوي في "شرح الجامع الصغير " وإذا نذر أن يصلي مطلقا لم يلزمه القيام، ثم قال: هذا هو الصحيح من الجواب.۔۔ قال فخر الإسلام: لم يلزمه القيام لأنه في النفل وصف زائد فلا يلزم إلا بالشرط وقال بعضهم: يلزمه قائما۔۔"

علامہ فخر الاسلام بزدوی علیہ الرحمہ شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: جب کسی نے مطلق نماز کی نذر مانی تو اسے قیام لازم نہیں، پھر فرمایا یہی صحیح جواب ہے۔۔فخر الاسلام علیہ الرحمہ نے فرمایا: قیام لازم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قیام، نفل میں ایک وصف زائد ہے تو شرط کے بغیر لازم نہیں ہوگا اور بعض نے فرمایا: قیام لازم ہوگا۔ (بنایہ شرح ہدایہ، ج2، ص543، مطبوعہ: بیروت)

بہار شریعت میں ہے: "اگر کھڑے ہو کر پڑھنے کی منت مانی تو کھڑے ہو کر پڑھنا واجب ہے اور مطلق نماز کی منت ہے تو اختیار ہے۔" (بہار شریعت، ج1، ص674، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ کراچی)

درر الحکام میں ہے:

"لو نذر أن يصلي أربعا بتسليمة فصلى أربعا بتسليمتين لا يخرج عن النذر وبالعكس يخرج، كذا في الكافي۔"

 اگر چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر مانی تو چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ پڑھنے سے منت سے باہر نہیں ہوگا جبکہ اس کے برعکس باہر ہوجائے گا، ایسا ہی کافی میں ہے۔ (درر الحکام، ج1، ص115، مطبوعہ: دار احیاء الکتب العربیہ)

تبیین الحقائق میں ہے:

الأفضل في الليل والنهار أربع أربع وهذا عند أبي حنيفة۔۔ولأبي حنيفة۔۔۔ما روي عن عائشة - رضي الله عنها - أنها قالت إنه - عليه الصلاة والسلام - «كان يصلي الضحى أربع ركعات ولا يفصل بينهن بسلام»۔۔؛ ولأنه أدوم تحريمة فيكون أكثر مشقة وأزيد فضيلة ولهذا لو نذر أن يصلي أربعا بتسليمة لا يخرج عنه بتسليمتين وعلى العكس يخرج۔۔۔

امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک دن اور رات میں چار چار رکعت پڑھنا افضل ہے۔آپ علیہ الرحمہ کی دلیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاشت کی چار رکعت پڑھتے اور ان میں سلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ چار رکعت ایک ساتھ پڑھنے میں تحریمہ کا زیادہ دیر باقی رہنا ہے جو کہ زیادہ مشقت و فضیلت کا باعث ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر مان لے تو چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ پڑھنے سے منت سے باہر نہیں ہوگا جبکہ اس کے برعکس باہر ہوجائے گا۔ (تبیین الحقائق، ج1، ص176، مطبوعہ: قاہرہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ألا ترى أنه لو نذر أن يصلي أربعا بتسليمة فصلى بتسليمتين لا يخرج عن العهدة كذا ذكر محمد في الزيادات كما في صفة التتابع في باب الصوم، ثم الصوم متتابعا أفضل فكذا الصلاة، والمعنى فيه ما ذكرنا أنه أشق على البدن فكان أفضل۔

 کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نےچار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر مانی تو چار رکعتیں دو سلام کے ساتھ پڑھنے سے بری الذمہ نہیں ہوگا، ایسا ہی امام محمد علیہ الرحمہ نے زیادات میں ذکر فرمایا ہےجیسا کہ روزے کے باب میں لگاتار کی صفت کے متعلق حکم ہے پھر روزے لگاتار افضل ہیں تو نماز کا بھی یہی حکم ہے اور اس میں معنی وہ ہے جو ہم نے ذکر کیا کہ یہ بدن پر مشقت والا ہے تو افضل ہے۔ (بدائع الصنائع، ج1، ص295، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ)

شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:

"وقد روى عن أبي يوسف: في رجل نذر أن يصلي أربع ركعات بتسليمة، أنه لا يكون له أن يفعلها بتسليمتين، ولو نذر أن يفعلها بتسليمتين: جاز له فعلها بتسليمة، كرجل قال: لله على صوم شهر متتابع، أنه لا يكون له التفريق.فلو قال: على صوم شهر متفرق: جاز له أن يتابع، فدل على أن المتابعة بين ركعات الصلاة قربة، فله فعلها ما لم تقم الدلالة على تركه۔"

 امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے روایت ہے اس شخص کے بارے میں جس نےچار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر مانی تووہ دو سلام کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اور اگر دو سلام کے ساتھ پڑھنے کی نذر مانی تو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا جائز ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ مجھ پر اللہ کریم کے لیے ایک ماہ کے لگاتار روزے لازم ہیں تو اسے الگ الگ کرنے کا اختیار نہیں لیکن اگر یہ کہا کہ مجھ پر ایک ماہ کے الگ الگ روزے لازم ہیں تو لگاتار رکھنا بھی جائز ہے، اس سے اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ نماز کی رکعات میں تسلسل بھی قربت ہے تو یہی کرنا ہوگا جب تک اس کے ترک پر دلالت قائم نہ ہو۔ (شرح مختصر الطحاوی للجصاص، ج2، ص139، مطبوعہ: دار البشائر الاسلامیہ)

(نذر) المكلف (حجا ماشيا مشى) من منزله وجوبا في الأصح (حتى يطوف الفرض) لانتهاء الأركان، ولو ركب في كله أو أكثره لزمه دم، وفي أقله بحسابه۔

 مکلف نے پیدل حج کرنے کی منّت مانی تو اصح قول کے مطابق واجب ہے کہ گھر سے طوافِ فرض تک پیدل ہی رہے کہ طواف فرض پر ارکان کی انتہا ہوجاتی ہے اور اگر پورا سفر یا اکثر سواری پر کیا تو دَم دے اور اس سے کم میں اس کے حساب سے۔ (تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار، ج2، ص619، مطبوعہ بیروت)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله حتى يطوف الفرض) وفي النذر بالعمرة حتى يحلق۔ لباب۔۔۔۔۔ (قوله وفي أقله بحسابه) أي يلزمه التصدق بقدره من قيمة الشاة الوسط بحر۔

متن کا قول(یہاں تک کہ طواف فرض کرلے) اورعمرہ کی منّت مانی تو حلق کروانے تک پیدل رہے، لباب۔ شرح کا قول(اس سے کم میں اس کے حساب سے) یعنی درمیانی بکری کی قیمت کا جتنا حصہ، اس کی مقدار ہو، وہ صدقہ کرے۔ ( رد المحتار، ج2، ص619، مطبوعہ: بیروت)

بہار شریعت میں ہے: " پیدل حج کرنے کی منّت مانی تو واجب ہے کہ گھر سے طوافِ فرض تک پیدل ہی رہے اور پورا سفر یا اکثر سواری پر کیا تو دَم دے اور اگر اکثر پیدل رہا اور کچھ سواری پر تو اسُی حساب سے بکری کی قیمت کا جتناحصہ اس کے مقابل آئے خیرات کرے۔ پیدل عمرہ کی منّت مانی تو سر مونڈانے تک پیدل رہے۔ (بہار شریعت، ج1، ص1255، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ کراچی)

بہار شریعت میں ہے: " یہ منّت مانی کہ جمعہ کے دن اتنے روپے فلاں فقیر کو خیرات دوں گا اور جمعرات ہی کو خیرات کردیے یا اوس کے سوا کسی دوسرے فقیر کو دیدیے منّت پوری ہوگئی یعنی خاص اوسی فقیر کو دینا ضرور نہیں نہ جمعہ کے دن دینا ضرور۔ یوہیں اگر مکہ معظمہ یامدینہ طیبہ کے فقرا پر خیرات کرنے کی منّت مانی تو وہیں کے فقرا کو دینا ضروری نہیں بلکہ یہاں خیرات کردینے سے بھی منّت پوری ہوجائیگی۔ یوہیں اگرمنّت میں کہا کہ یہ روپے فقیروں پر خیرات کروں گا تو خاص اونھیں روپوں کا خیرات کرنا ضرور نہیں اوتنے ہی دوسرے روپے دیدئیے منّت پوری ہوگئی۔۔۔جمعہ کے دن نماز پڑھنے کی منّت مانی اور جمعرات کو پڑھ لی منّت پوری ہوگئی یعنی جس منّت میں شرط نہ ہو اوس میں وقت کی تعیین کا اعتبار نہیں یعنی جووقت مقرر کیا ہے اس سے پہلے بھی ادا کرسکتا ہے اور جس میں شرط ہے اوس میں ضرور ہے کہ شرط پائی جائے بغیر شرط پائی جانے کے ادا کیا تو منّت پوری نہ ہوئی، شرط پائی جانے پر پھر کرنا پڑیگا مثلاً کہا اگر بیمار اچھا ہوجائے تو دس روپے خیرات کرونگا اور اچھا ہونے سے پہلے ہی خیرات کردیے تو منّت پوری نہ ہوئی، اچھے ہونے کے بعد پھر کرنا پڑے گا۔ باقی جگہ اور روپے اور فقیروں کی تخصیص دونوں میں بیکار ہے خواہ شرط ہو یانہ ہو۔ (بہار شریعت، ج02، ص316، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ کراچی)

اشکال:

اگر صلوٰۃ التسبیح کی نماز پڑھتے ہوئے توڑ دی تو واجب الاداء دو نفل صلوٰۃ التسبیح کی طرح تسبیحات کے ساتھ پڑھنے ہوں گے یا عام نفلوں کی طرح بھی پڑھ سکتےہیں۔اگر تو صلوٰۃ التسبیح کی طرح ہی پڑھنے ہوں گے تو پھر تو حکم ِ قضا اور حکمِ نذر ایک ہی ہوئے لیکن اس پر جزئیہ چاہیے اور اگر عام نفلوں کی طرح پڑھ کر بھی واجب الاداء ادا ہوجائے گی تو اگر توڑنے سے وہی ہیئت لازم نہ ہوئی تو منت ماننے سے وہ ہیئت لازم کیوں ہوگی؟ نیزاگر صلوٰۃ التسبیح شروع کرنے کے بعد اسے تسبیحات کے بغیر عام نوافل کی طرح پڑھا تو کیا ترکِ واجب ہوا؟ بظاہر نہیں تو اگر صلوٰۃ التسبیح شروع کرکے بھی اس کی مشقت کا التزام لازم نہ ہوا تو منت سے کیوں کر ہوگا؟

جواب:

مذکورہ بالا اشکال کا جواب یہ ہے کہ صلوۃ التسبیح توڑنے کی صورت میں اعادہ کس طرح کریں گے؟ اس پر کوئی صریح جزئیہ تو نہیں ملا لیکن فقہائے کرام جو فرماتے ہیں کہ "چار رکعت نفل کی نیت باندھی اور شفع اول یاثانی میں توڑ دی تو دو رکعت قضا واجب ہوگی اور ایسی صورت میں نفل کی دورکعت میں وہی قراءت، ذکر اور فعل لازم ہے جو فرض کی صورت میں لازم ہوتا ہے"، اس سے استدلالاً یہی ثابت ہوتا ہے کہ صلوٰۃ التسبیح بھی چونکہ نفل ہے لہذا اگر توڑ دی تو عام نفلوں کی طرح ہی اس کا اعادہ لازم ہے۔

 مگر اس حکم سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ صلوۃ التسبیح کی منت ماننے کی صورت میں بھی عام نفلوں کی طرح ہی اس کی ادائیگی لازم ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ اگرچہ عبادت شروع کرنا اور نذر ماننا دونوں التزام کی صورتیں ہیں، لیکن دونوں التزاموں کے احکام میں فقہائے کرام نے کئی مقامات پرفرق بیان فرمایا ہے۔ اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

(1) اگر کسی نے نفل کھڑے ہوکر شروع کردیے، اب بیٹھنا چاہتا ہے تواسے بیٹھنے کی اجازت ہے اگرچہ قیام افضل ہے لیکن اگر کسی نے کھڑے ہوکر نفل پڑھنے کی نذر مان لی تو اب بیٹھ نہیں سکتا، ورنہ نذر پوری نہیں ہوگی۔

(2) اگر کسی شخص نے نذر مانے بغیر لگاتار روزے رکھنے شروع کردیے، پھر بیمار ہوگیا اور نہ رکھ سکا تو نئے سرے سے سارے روزے رکھنا لازم نہیں ہے لیکن اگر لگاتار روزے رکھنے کی نذر مانی اور  کچھ رکھنے کے بعددرمیان میں ناغہ کردیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے لازم ہوں گے۔

(3) پیدل حج کرنے کی نذر مانی تو پیدل کرنا ہی لازم ہے لیکن پیدل حج کرنے کی نذر مانے بغیر حج کےلیے پیدل چلنا شروع کردیا تو اس سے پیدل ہی حج کرنا لازم نہیں ہوگیا بلکہ سوار ہوسکتا ہے۔

(4) کسی نے مکروہ وقت میں نوافل شروع کردیے اور قصداً فاسد کردیے تو ان کی قضا لازم ہے۔اب اگر وہ قضا بھی مکروہ وقت میں کرلے تو قضا ادا ہوجائے گی اگرچہ مکروہ وقت میں اداکرنے سے گناہ ہوگا لیکن نذر کے نوافل کو مکروہ وقت میں ادا نہیں کرسکتا، ورنہ نذر سے بری الذمہ نہیں ہوگا۔

جزئیات بالترتیب پیش خدمت ہیں:

در مختار کے قول ”لزم نفل شرع فیہ (نفل جو شروع کرچکا ہو ان کو مکمل کرنا لازم ہے۔)کے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں:

”حتی اذا افسدہ لزم قضاؤہ ای قضاء رکعتین وان نوی اکثر“

 ترجمہ: یہاں تک کہ اگر اس نے اس نفل نماز کو فاسد کردیا تو دو رکعتوں کی قضا اس پر لازم ہوگی اگر دو سے زائد رکعتوں کی نیت کی ہو۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج2، ص574، مطبوعہ کوئٹہ)

نفل فاسد کردیےتو اسے کس طرح پڑھیں گے؟ اس کے متعلق محیط برہانی میں ہے:

"ويلزمه في كل ركعتين من القراءة والذكر والفعل ما يلزمه في صلاة الفرض"۔

 ترجمہ: نفل کی ہر دورکعت میں وہ قراءت، ذکر اور فعل لازم ہے جو فرض کی صورت میں لازم ہوتا ہے(محیط برہانی، ج01، ص445، مطبوعہ : بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ”چار رکعت نفل کی نیت باندھی اور شفع اول یاثانی میں توڑ دی تو دو رکعت قضا واجب ہوگی۔“ (بہار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ669، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

نذر اور عبادت شروع کرنے میں فرق ہے۔چنانچہ محیط برہانی میں ہے

"والدليل على الفرق بين النذر، والشروع أيضا أنه لو نذر أن يصلي ركعتين قائما فعجز وصلى قاعدا من عذر لا يجزيه وفی الشروع یجزئہ وکذالک لو نذر أن يصوم متتابعا فمرض يلزمه الاستقبال وفي الشروع لا يلزمه الاستقبال، ، دل على التفرقة بينهما، إلا أن القيام أفضل۔"

 نذر اور شروع کرنے کے درمیان فرق پر دلیل یہ بھی ہے کہ اگر کسی نے کھڑے ہوکر دو رکعت پڑھنے کی نذر مان لی پھرعاجز ہوا اور عذر سے بیٹھ کر ادا کرلی تو کافی نہیں جبکہ(نفل کھڑے ہوکر) شروع کرنے کی صورت میں کافی ہے، اسی طرح اگر کسی شخص نے لگاتار روزے رکھنے کی نذر مانی پھر (کچھ رکھنے کے بعد)بیمار ہوگیا (اور روزہ نہ رکھا)تو نئے سرے سے رکھنے لازم ہوں گےجبکہ( نذر مانے بغیر) لگاتار روزے رکھنے شروع کردیے، تو نئے سرے سے سارے روزے رکھنا لازم نہیں ہے۔یہ بات نذر اور شروع کرنے کے درمیان فرق پر دال ہے ہاں قیام افضل ہے۔(محیط برہانی، ج1، ص435، مطبوعہ: مکتبۃ الرشد)

جوہرہ نیرہ میں ہے:

"والدليل على التفرقة بين الشروع والنذر أنه لو نذر أن يصوم متتابعا فصام البعض ومرض فأفطر يلزمه الاستئناف وفي الشروع لا يلزمه الاستئناف وكذا إذا نذر أن يحج ماشيا لزمه ماشيا ولو شرع فيه ماشيا لم يلزمه المشي۔"

 شروع اور نذر کے درمیان فرق پر دلیل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے لگاتار روزے رکھنے کی نذر مانی پھر کچھ رکھنے کے بعد بیمار ہوگیا اور روزہ نہ رکھا تو نئے سرے سے رکھنے لازم ہوں گےجبکہ(نذر مانے بغیر) لگاتار روزے رکھنے شروع کردیے، تو نئے سرے سے سارے روزے رکھنا لازم نہیں ہے۔اسی طرح اگرپیدل حج کرنے کی نذر مانی تو پیدل کرنا ہی لازم ہے لیکن (پیدل حج کرنے کی نذر مانے بغیر )حج کے لیے پیدل چلنا شروع کردیا تو اس سے پیدل ہی حج کرنا لازم نہیں ہوگیا۔ (جوہرہ نیزہ، ج1، ص72۔۔73، مطبوعہ: المطبعۃ الخیریۃ)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"ولو افتتح التطوع حين طلعت الشمس ثم أفسدها متعمدا ثم قضاها حين احمرت الشمس أجزأه إلا على قول زفر - رحمه الله تعالى - فإنه يقول: لما أفسدها فقد لزمه قضاؤها وصار ذلك دينا في ذمته فلا يسقط بالأداء في الوقت المكروه بمنزلة المنذورة التي شرع فيها في وقت مكروه ولكنا نقول: لو أداها حين افتتحها لم يكن عليه شيء آخر فكذلك إذا قضاها في مثل ذلك الوقت لم يلزمه شيء آخر۔"

 کسی نے سورج طلوع ہوتے وقت نفل شروع کیے پھر قصداً فاسد کردیے پھر سورج سرخ ہونے کے وقت ان کی قضا کرلی تو کافی ہے سوائے امام زفر علیہ الرحمہ کے قول کے، وہ یہ فرماتے ہیں کہ جب اس نے فاسد کیے تو ان کی قضا لازم ہوئی اور اس کے ذمے دین ہوئی تو مکروہ وقت میں ادائیگی سے ساقط نہیں ہوگی  جیسے نذر والی نماز مکروہ وقت میں شروع کردینے کا حکم ہے۔لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اس سے وہ نفل شروع کیے تھے اگر تبھی ادا کرلیتا تو اس پر کچھ اور لازم نہیں ہونا تھا اسی طرح اگر اس نے اس وقت کے مثل میں قضا کردیا تو کچھ اور لازم نہیں ہوگا۔ (مبسوط سرخسی، ج2، ص102، مطبوعہ: بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو افتتح التطوع وقت طلوع الشمس فقطعها ثم قضاها وقت تغير الشمس أجزأه؛ لأنها وجبت ناقصة وأداها كما وجبت فيجوز كما لو أتمها في ذلك الوقت۔"

 کسی نے سورج طلوع ہوتے وقت نفل شروع کیے پھر توڑدیے پھر سورج کے تغیر کےوقت ان کی قضا کرلی تو کافی ہے کیونکہ یہ نماز ناقص ہونے کی حالت میں واجب ہوئی اور اس نے ایسے ہی ادا کیا جیسے واجب ہوئی تو نماز ہوجائے گی جیسا کہ اگر اسی وقت مکمل کرلیتا۔ (بدائع الصنائع، ج1، ص2912، مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ)

درر الحکام میں ہے:

"وقال الكمال يخرجه يعني القضاء فيه عن العهدة وإن كان آثما اهـ. "

علامہ کمال نے فرمایا کہ مکروہ وقت میں قضا سے وہ بری الذمہ تو ہوجائے گا اگرچہ گناہگار ہوگا۔ (درر الحکام، ج1، ص53، مطبوعہ: دار احیاء الکتب العربیۃ)

مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عبادت شروع کرنا اور نذر ماننا اگرچہ دونوں سببِ وجوب ہیں لیکن دونوں میں کئی مواقع پر فقہائے کرام نے فرق فرمایا ہے بلکہ مذکورہ بالا جزئیات میں سے بعض میں واضح طور پر "والدليل على التفرقة بين الشروع والنذر "وغیرہ الفاظ ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ صلوۃ التسبیح کی منت کے حکم کو صلوۃ التسبیح شروع کرنے کے حکم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، لہذا اگر کسی نے صلوۃ التسبیح شروع کردی اور بغیر تسبیحات کے مکمل کردی یا صلوۃ التسبیح شروع کردینے کے بعد توڑ دی تو اگرچہ اس پر صلوۃ التسبیح کی طرح اعادہ لازم نہیں ہے، لیکن صلوۃ التسبیح کی نذر ماننے کی صورت میں صلوۃ التسبیح  کا طریقہ کار ہی اپنانا ہوگا جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں سے واضح ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد   ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: GRW-1341

تاریخ اجراء:  17 صفر المظفر 1446 ھ/23اگست 4 220 ء