انگلی پر چھالا ہو تو وضو اور غسل کیسے کریں؟

انگلی پر چھالا ہو تو وضو و غسل کاطریقہ

مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3661

تاریخ اجراء:14 رمضان المبارک 1446 ھ/15 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ اگر کسی بندے کے ہاتھ کی انگلی پہ چھوٹا سا چھالا ہے اور اسے نوچنے پر زخم ہونے کا اندیشہ ہے تو یہ بتائیں جب بندہ فرض غسل کرے گا تو کیا اس چھالے کے اوپر سے ہی پانی بہانے سے غسل کا فرض ادا ہو جائے گا اور جب بندہ وضو کرے گا تو کیا اس چھالے کے اوپر سے ہی پانی بہا لینے سے اس کا وضو ہو جائے گا یا اس چھالے کو پھوڑنا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غسل میں اعضائے ظاہری کو دھونا فرض ہے اور چھالے میں کھال کے اندر کا حصہ ظاہری حصہ نہیں  ہوتا لہذا چھالہ پھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے اوپر سے پانی بہانے سے وضو و غسل ہوجائے گا۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے"الطرف الذي كان يخرج منه القيح فغسل الجلدة ولم يصل الماء إلى ما تحت الجلدة جاز وضوءه؛ لأن ما تحت الجلدة غير ظاهر فلا يفترض غسله. كذا في فتاوى قاضي خان“ ترجمہ: وہ حصہ جس جانب سے پیپ نکل رہی  تھی، وضو کرنے والے نے اس کھال کو دھو لیا لیکن کھال کے اندر پانی نہیں گیا تو وضو ہوگیا کہ کھال کے اندر کا حصہ  ظاہری حصہ  نہیں تو اس کا دھونا فرض نہیں، اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے۔ (الفتاوی الہندیہ، ج 1، ص 5، دار الفکر)

   بہار شریعت میں ہے" کسی جگہ چھالا تھا اور وہ سوکھ گیا مگراس کی کھال جدا نہ ہوئی تو کھال جدا کر کے پانی بہانا ضروری نہیں بلکہ اسی چھالے کی کھال پر پانی بہالینا کافی ہے۔ پھر اس کو جدا کر دیا تو اب بھی اس پر پانی بہانا ضروری نہیں۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 2، ص 292، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم