
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:Web-1879
تاریخ اجراء:24صفرالمظفر1446ھ/30اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
دو لڑکیوں کا آپس میں اس طرح کی دوستی رکھنا کہ ایک دوسرے کو ہی اپنا سمجھنا اور موبائل کے ذریعے آپس میں شہوت کو ابھارنے والی گفتگو کرنا، دل میں بھی ایک دوسرے کو لائف پارٹنر تصور کرنا، اس طرح کا تعلق رکھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس دوستی کو فورا ً ختم کرنا لازم ہے کیونکہ یہ دوستی نہیں ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کو جہنم میں پہنچانے والا عمل ہے ،ایک دوسرے کے ساتھ شہوت کو ابھارنے والی گفتگو کرنا حرام ہے اور اس طرح کی باتیں مزید حرام افعال کی طرف لے جانی والی ہیں ،یاد رہے کہ عورت کا عورت سے برا تعلق رکھنا، یہ سخت حرام ،نا جائزاور مذموم فعل ہے، اگر کسی کے ساتھ نارمل دوستی میں بھی شہوت کا خطرہ ہے، تو دوستی کرنا بھی جائز نہیں، صوفیا فرماتے ہیں کہ کسی کے بیٹھنے کی جگہ کو دیکھنے سے شہوت آتی ہو ،تو اس جگہ کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں چہ جائیکہ اس کے ساتھ دوستی رکھی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآىٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْۚ-فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِیْلًا﴾ترجمہ کنزالایمان:اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں، ان پر خاص اپنے میں کے چار مردوں کی گواہی لو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں ،تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو، یہاں تک کہ انہیں موت اٹھالے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے۔ (پارہ4،سورہ النساء،آیت15)
تفسیر کبیر میں امام ابومسلم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے:”ان المراد بقوله واللاتی ياتين الفاحشة السحاقات“ یعنی اللہ پاک کے اس قول﴿وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ﴾سے مراد خود عورت کا عورت سے بےحیائی کا کام کرنا ہے۔(تفسیر الکبیر،جلد9، صفحہ528، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
علامہ ملّا احمد جیون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:”ان الاولی فی باب السحاقات“ یعنی پہلی آیت ان عورتوں کے بارے میں ہے جو عورت سے بدفعلی کریں۔ (التفسیرات الاحمدیہ، صفحہ19، مطبوعہ: مکتبۃ الشرکۃ)
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”سحاق النساء زنا بينهن “یعنی عورتوں کا ایک دوسرے سے جنسی عمل کرنا ان کے درمیان زنا ہے۔(شعب الایمان، باب فی تحریم الفروج، جلد4، صفحہ376، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
امام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”(مساحقة النساء وهو ان تفعل المراة بالمراة مثل صورة ما يفعل بها الرجل) كذا ذكره بعضهم واستدل له بقوله: السحاق زنا النساء بينهن وقوله : ثلاثة لا يقبل اللہ منهم شهادة ان لا اله الا اللہ: الراكب والمركوب، والراكبة والمركوبة، والامام الجائر “یعنی مُسَاحَقَۃُ النِّسَاء یہ ہے کہ عورت عورت کے ساتھ اس طرح بدفعلی کرے جیسے مرد عورت کے ساتھ کرتے ہیں،جیسا کہ بعضوں نے ذکر کیا ہے، انہوں نے حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے: عورتوں کا آپس میں سحاق زنا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:اللہ پاک تین لوگوں کی شہادت قبول نہیں کرتا،بدکاری کرنے والا اور کروانے والا، بدکاری کرنے والی اور کروانے والی اور ظالم حکمران۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، جلد2، صفحہ235، دار الفکر، بیروت)
اس کی مذمت کےلیے یہی کافی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی عورتیں اسی عمل کے سبب عذاب کی حقدار ٹھہریں اور مردوں کے ساتھ یہ بھی مبتلائے عذاب ہوئی تھیں، جیسا کہ حضرت محمد بن علی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا:”عذب اللہ نساء قوم لوط بعمل رجالها؟ قال :اللہ اعدل ۔۔۔ يستغنی الرجال بالرجال والنساء بالنساء“یعنی :کیا اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی عورتوں کو ان کے مَردوں کے عمل کے سبب عذاب میں مبتلا کیا؟آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:بیشک اللہ پاک سب سے زیادہ انصاف فرمانے والا ہے۔ اس قوم کے مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے شہوت پوری کیا کرتے تھے(اس لیے مردوں کے ساتھ عورتیں بھی مبتلائے عذاب ہوئیں۔)(تاریخ ابن عساکر، جلد50، صفحہ320، دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم