دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
اگر کوئی عورت مرد کی طرح سجدہ کرے، یعنی سجدے میں جب جائے تو ویسے پاؤں رکھے جیسے مرد رکھتے ہیں لیکن پھر سجدے سے اٹھ کر تشہد میں الٹی سرین پر بیٹھ جائے اور دونوں پاؤں بھی سیدھی جانب نکال دے، تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
احادیثِ مبارکہ کے مطابق عورت کا سجدہ مَردوں کے سجدے کی طرح نہیں، لہذا عورت سجدے میں مَردوں کی طرح پاؤں نہیں رکھے گی، یعنی پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہیں کرے گی۔ پاؤں کی انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگانے کا حکم، خاص مَردوں کے لئے ہے، عورتیں اس حکم سے علیحدہ ہیں، اس میں شامل نہیں، کیونکہ جب سجدے میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی ہوں گی، تو پنڈلیاں زمین سے لگ نہیں پائیں گی، جبکہ عورت کے لئے سجدے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ وہ سجدے میں زمین سے چمٹ جائے، یعنی بازو کروٹوں سے، پیٹ رانوں سے، اور رانیں، پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے ملا دے اور اپنی کلائیاں زمین پر بچھادے اور دونوں پاؤں کو سیدھی جانب نکال دے۔ البتہ! اگر عورت اس مسنون طریقے کے بر خلاف مردوں کی طرح سجدہ کرے تو اس کا یہ عمل خلافِ سنت ہو گا، مگر نماز پھر بھی درست ہو جائے گی کہ سنت کے ترک سے بھی نماز ہو جاتی ہے۔
عورت کا سجدہ مردوں کے سجدے کی طرح نہیں، چنانچہ امام ابو داؤد علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”المراسیل لابی داؤد“ میں روایت نقل فرماتے ہیں:
”عن يزيد بن أبي حبيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على امرأتين تصليان فقال: «إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل»“
ترجمہ: یزید بن ابی حبیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے، جونمازپڑھ رہی تھیں، توآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: جب تم سجدہ کروتو اپنے گوشت (جسم) کا کچھ حصہ زمین سے ملایا کرو، کیونکہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں۔ (المراسیل لابی داؤد، صفحہ117، حدیث: 87، مؤسسة الرسالة، بيروت)
سنن کبری للبیہقی کی حدیث پاک ہے
”عن أبي سعيد الخدري، صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: خير صفوف الرجال الأول، وخير صفوف النساء الصف الآخر وكان يأمر الرجال أن يتجافوا في سجودهم، ويأمر النساء ينخفضن في سجودهن“
ترجمہ: صحابی رسول، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور عورتوں کے لیے سب سے بہتر صف آخری صف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم دیتے کہ وہ سجدے میں بازوؤں کو پہلوؤں سے دور رکھیں اور عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ سجدے میں جھک جائیں۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد 2، صفحہ 314، حدیث: 3198، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اسی میں ایک اور روایت ہے
”عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذها على فخذها الأخرى، وإذا سجدت ألصقت بطنها في فخذيها“
ترجمہ: حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ران کو دوسری ران پر رکھے اور جب سجد ہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا دے۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد 2، صفحہ 315، حدیث: 3199، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
عورت سجدے میں اپنے پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہیں کرے گی، چنانچہ البحر الرائق شرح کنزالدقائق میں ہے
”أنها لا تنصب أصابع القدمين كما ذكره في المجتبى“
ترجمہ: عورت (سجدے میں) دونوں پاؤں کی انگلیوں کوکھڑا نہیں کرے گی، جیسا کہ اسے مجتبیٰ میں ذکر کیا۔ (البحر الرائق، جلد1، صفحہ561، مطبوعہ: کوئٹہ)
سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنے کے حکم سے عورتیں مستثنی ہیں، چنانچہ فتاوی جامعہ اشرفیہ میں ہے ”عورتوں کے لیے سجدہ کرنے میں یہ ضروری ہے کہ پنڈلیاں زمین سے چپکی ہوں اور ران پنڈلیوں سے۔ (سجدے میں پاؤں کی) انگلیوں کے پیٹ زمین پر اسی وقت لگیں گے جب پیر کھڑے ہوں اور جب پیر کھڑے ہوں گے تو پنڈلیاں زمین سے چپک نہیں پائیں گی، (جبکہ عورتوں کو سجدے میں پنڈلیاں زمین سے چپکانے کا حکم ہے) اس لیے وہ اس حکم (یعنی پاؤں کی انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنے) سے مستثنی(علیحدہ ) ہیں۔“ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد5، صفحہ416، مجلس فقھی، مبارک پور)
فتاوی تاج الشریعہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”عورتیں اس طرح ( یعنی مردوں کی طرح )سجدہ نہ کریں، بلکہ پیٹ کو رانوں سے لگا کر پیروں کو دائیں جانب نکالیں۔
در مختار میں ہے:
"والمرأۃ تنخفض فلا تبدی عضدیھاوتلصق بطنھا بفخذیھا لانہ استر"
ترجمہ: اور عورت سجدے میں جھکے گی تو وہ دونوں بازو ظاہر نہ کرے گی اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملائے گی کیونکہ اس میں زیادہ ستر ہے۔
اور ردالمحتار میں ہے: "وذكر في البحرانها لا تنصب اصابع القدمين كما ذكره في المجتبى" ترجمہ: اور بحر میں بیان کیا کہ عورت پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہیں کرے گی جیسا کہ اس کو مجتبیٰ میں بیان کیا ہے۔
اور جدی الكريم امام احمد رضا قدس سره العزيز "لا تنصب أصابع القدمين" کے تحت جدالممتار میں فرماتے ہیں: "اي في السجود" (یعنی سجدے میں عورت پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہیں کرے گی)۔“ (فتاوی تاج الشریعہ، جلد3، صفحہ184، 183، مطبوعہ: بریلی شریف، یوپی)
عورت کا زمین سےچمٹ کر سجد ہ کرنا مسنون ہے، چنانچہ نور الایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:
”يسن (انخفاض المرأة ولزقها بطنها بفخذيها)لأنه عليه السلام مر على امرأتين تصليان فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى بعض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل لأنها عورة مستورة“
ترجمہ: عورت کا سجدے میں جھکنا اور اپنا پیٹ اپنی رانوں سے ملانا سنت ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، تو فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے کچھ گوشت کو آپس میں ملائے رکھو، کیونکہ عورت اس معاملے میں مرد کی طرح نہیں، کیونکہ وہ عورت یعنی چھپی ہوئی پردے میں رکھی جانے والی چیز ہے۔ (نور الایضاح مع مراقی الفلاح، صفحہ146، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
محدث وصی احمد سورتی رحمۃ اللہ علیہ "التعلیق المجلیٰ لما فی منية المصلی" میں فرماتے ہیں:
”أما المراۃ فینبغی ان تفترش ذراعیھا وتنخفض ولاتنتصب کانتصاب الرجل ویلصق بطنھا بفخذیھا۔۔۔ فکان السنۃ فی حقھا ما کان استر من الھیئۃ‘‘
ترجمہ: بہرحال عورت کو چاہیے کہ وہ(سجدے میں) اپنی کلائیوں کو زمین پربچھا لے اور اپنے جسم کو پست رکھےاور مرد کی طرح (اپنے اعضاء کو) بلند نہ کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا لے۔۔۔پس اس کے حق میں مسنون طریقہ وہی ہے جو ہیئت میں سب سے زیادہ پردے والا ہے۔ (التعلیق المجلیٰ لما فی منية المصلي، صفحہ311، ضیاء القرآن، لاھور)
موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:
”وفي سجودها تفترش ذراعيها، وتنضم وتلزق بطنها بفخذيها؛ لأن ذلك أستر لها، فلا يسن لها التجافي كالرجال لحديث زيد بن أبي حبيب أن النبي صلى الله عليه وسلم مر على امرأتين تصليان، فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى بعض، فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل۔ولأنها عورة فالأليق بها الانضمام“
ترجمہ: اور سجدے میں وہ اپنی کلائیاں بچھا دے گی ہے، اور سمٹ جائے گی اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملالے گی ؛ کیونکہ یہ اُس کے لیے زیادہ پردے کا باعث ہے۔ اس لیے عورت کے لیے مردوں کی طرح سجدے میں پھیلنا مسنون نہیں، زید بن ابی حبیب کی حدیث کی وجہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، تو فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے کچھ گوشت کو (یعنی جسم کو) ایک دوسرے کے ساتھ ملا لو، کیونکہ عورت اس معاملے میں مرد کی طرح نہیں ہے۔ اور اس لئے بھی کہ وہ عورت یعنی چھپائی جانے والی چیز ہے تو اُس کے لیے سمٹ کر سجدہ کرنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد7، صفحہ89، دار السلاسل، كويت)
بہار شریعت میں ہے ”عورت سمٹ کر سجدہ کرے، یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے اور پیٹ ران سے اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 529، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
سنت كے ترک سے بھی نماز ہوجاتی ہے، چنانچہ در مختار میں ہے ”ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سھوا“ ترجمہ: سنت کا ترک نہ نماز کو فاسد کرتا ہے اور نہ ہی سجدہ سہو کو لازم کرتا ہے۔ (الدر المختار، جلد2، صفحہ207، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-4537
تاریخ اجراء:21جمادی الثانی1447ھ/13دسمبر2025ء