عورت کے لیے ٹریک سوٹ پہننے کا حکم

عورت کے لیے کھلاڑی والا لباس ٹریک سوٹ پہننے کاحکم

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا کوئی عورت ٹریک سوٹ، جو کہ کھلاڑی پہنتے ہیں، وہ پہن سکتی ہے؟ جو خاص عورت کے لئے بنایا گیا ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یاد رہے کہ !عورت کا ایسا چست یا ٹائٹ لباس پہننا، جس سے بدن کی ہیئت و ساخت نمایاں ہو، شریعت میں ناجائز اور بے پردگی کے زمرے میں آتا ہے، چاہے وہ لباس موٹا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بدن کے اعضا کی تفصیل ظاہر ہونا بھی حیا و پردے کے منافی ہے۔ حدیث شریف میں قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے کہ: عورتیں "کاسیات عاریات" ہوں گی یعنی لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی۔"

اس کی شرح میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ: "چست لباس پہنیں گی، جس سے بدن کی بناوٹ ظاہر ہوگی۔"

اس تفصیل کے بعد مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ ٹریک سوٹ، جو کھیل، ورزش یا واک کے دوران پہنا جاتا ہے، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اس کے پہننے سے بدن کی ہیئت و ساخت نمایاں ہوتی ہے، اعضا کی تفصیل ظاہر ہوتی ہے، لہذا اگر ایسا ہی لباس ہے تو اس طرح کا لباس، عورت کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ خاص عورتوں کے لیے ہی بنایا گیا ہو، کیونکہ یہ ستر چھپانے کے بجائے ستر ظاہر کرنے کا سبب بن رہا ہے، نیز اس طرح کا لباس عام طور پر فاسقات یعنی مختلف طرح کے کھیل کھیلنے والی عورتیں ہی پہنتی ہیں، نیک و پارسا لوگوں میں اس طرح کا لباس نہیں پہنا جاتا، تو یوں یہ فاسقات کے ساتھ مشابہت بھی ہے، لہذا مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ چست، باریک یا بدن نمایاں کرنے والے لباس سے مکمل اجتناب کریں، اور سلیقے اور شرعی پردے کے تقاضوں کے مطابق لباس اختیار کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”صنفان من اھل النار لم ارھما۔۔۔ نساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات، رءوسھن کاسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ و لا یجدن ریحھا وان ریحھا لیوجد من مسیرۃ کذا و کذا“

یعنی: دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں، جنہیں میں نے( اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔ (میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی۔ ایک جماعت) ایسی عورتوں کی ہے، جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی، لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی، بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر ایسے ہوں گے، جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہوئی کوہانیں ہوں، یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی۔ (صحیح مسلم، جلد3، صفحہ2192، حدیث: 21ٍ28، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ خوب چست بدن سے سلے کہ یہ سب وضع فساق ہے اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کا سیات عاریات ہوں گی کپڑے پہنے ننگیاں، اس کی وجوہ تفسیر سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ چست ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے بعض لکھنؤ والیوں کی تنگ شلواریں چست کرتیاں۔ رد المحتارمیں ہے:

"فی الذخیرۃ وغیرھا ان کان علی المراۃ ثیاب فلا باس ان یتامل جسدھا اذا لم تکن ثیابھا ملتزقۃ بھا بحیث نصف ماتحتھا وفی التبیین قالوا ولا باس بالتأمل فی جسدھا وعلیھا ثیاب مالم یکن ثوب یبین حجمھا فلا ینظر الیہ حنیئذ لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من تامل خلف امرأۃ ورأی ثیابھا حتی تبین لہ حجم عظامھا لم یرح رائحۃ الجنۃ ولانہ متی کان یصف یکون ناظرا الی اعضائھا اھ ملخصا۔"

 ( ذخیرہ وغیرہ میں ہے کہ اگر عورت نے لباس پہن رکھا ہو تو اس کے جسم کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ لباس اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ سب کچھ عیاں ہونے لگے۔ التبیین میں ہے کہ ائمہ کرام نے فرمایا: جب عورت لباس پہنے ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ لباس ایسا تنگ اور چست نہ ہوجواس کے حجم کو ظاہر کرنے لگے، اور اگر حجم ظاہر کرے تواس صورت میں اس کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی وجہ سے کہ: " جس کسی نے عورت کو پیچھے سے دیکھا اوراس کے لباس پر نظر پڑی یہاں تک کہ اس کی ہڈیوں کا حجم واضح اور ظاہر ہوگیا، تو ایسا شخص جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔"اور اس لئے کہ لباس سے انداز قد وقامت ظاہر ہو تو اس لباس کو دیکھنا مخفی اعضاء کو دیکھنے کے مترادف ہے۔) (فتاوی رضویہ، جلد22، صفحہ162، 163، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”اجنبیہ عورت نے خوب موٹے کپڑے پہن رکھے ہیں کہ بدن کی رنگت وغیرہ نظر نہیں آتی، تو اس صورت میں اس کی طرف نظر کرنا جائز ہے، کہ یہاں عورت کو دیکھنا نہیں ہوا بلکہ ان کپڑوں کو دیکھنا ہوا، یہ اس وقت ہے کہ اس کے کپڑے چست نہ ہوں اور اگر چست کپڑے پہنے ہو کہ جسم کا نقشہ کھنچ جاتا ہو مثلاً چست پائجامہ میں پنڈلی اور ران کی پوری ہیئت نظر آتی ہے تو اس صورت میں نظر کرنا ناجائز ہے۔" (بہار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ448، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4411

تاریخ اجراء: 15جمادی الاولی1447 ھ/07نومبر2025 ء