عورت کا اجنبی کے سامنے وگ (wig) کے بال کھول کر رکھنا

عورت کا بالوں کی وِگ اجنبیوں کے سامنے کھول کررکھنے کاحکم

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

عورت کے اصل بالوں کا نظر آنا گناہ ہے، تو اگر شادی بیاہ کے موقع پر، عورت اپنے اصلی بالوں کے بجائے، نقلی بال (wig) لگا لے، تو کیا ان نقلی بالوں کا دکھانا بھی گناہ ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اولاً یہ سمجھ لیجئے کہ انسانی بالوں کا استعمال وگ یا پیوندکاری وغیرہ کی صورت میں ناجائز و گناہ ہے، اگرچہ اپنے ہی بالوں سے تیار کردہ ہو، اسی طرح خنزیر کے بالوں کا استعمال بھی مطلقا حرام ہے، ہاں! اس کے سوا دیگر جانوروں کے بال یا اون وغیرہ سے بنے ہوئے، مصنوعی بالوں کی وگ لگانے میں حرج نہیں ہے۔

اب جن بالوں کی وگ لگانا جائز ہے، وہ نقلی بال کھول کر غیر محرموں کے سامنے آنے کی بھی ہرگز اجازت نہیں ہے، کہ ایک تو لوگ اسے بے پردگی کرنے والی ہی سمجھیں گے، اور بلاضرورت شرعی اپنے اوپر بدگمانی اور طعن وتش کاموقع دینےکی اجازت نہیں۔

اور دوسرا اصل بالوں کی طرح نقلی بالوں کا کھولنا بھی فتنے کا باعث بن سکتا ہے، لہذا نقلی بالوں کی وگ لگائی ہو تو، اسےغیر محرموں کے سامنے اچھی طرح چھپا کر رکھنا عورت پر لازم ہے۔

درمختار میں ہے

”وصل الشعر بشعر الاٰدمی حرام سواء کان شعرھا او شعر غیرھا“

ترجمہ: انسانی بالوں کو کسی انسان کے بالوں میں لگانا حرام ہے، چاہے وہ اس کے اپنے بال ہوں یا کسی اور کے۔ (الدر المختار مع ردالمحتار، جلد9، صفحہ614، مطبوعہ: کوئٹہ )

 خنزیر کے بال لگانا حرام ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے

”الخنزیر فقد روی عن ابی حنیفۃ انہ نجس العین لان اللہ تعالیٰ وصفہ بکونہ رجسا فیحرم استعمال شعرہ وسائر اجزائہ“

ترجمہ: خنزیر کے بارے میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ نجس العین ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو گندگی کی صفت سے موصوف کیا ہے پس اس کے بالوں اور تمام اجزاء کا استعمال حرام ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ200، مطبوعہ: کوئٹہ )

خنزیر کے علاوہ دوسرے جانوروں کے بالوں سے بنی ہوئی وگ یا مصنوعی بالوں کی وگ لگانے میں حرج نہیں، چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے

”لا بأس للمرأۃ ان تجعل فی قرونھا وذوائبھا شیئا من الوبر“

ترجمہ: عورت کا اپنے گیسوؤں اور چوٹی میں اونٹ یا خرگوش وغیرہ کے بال لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتاوٰی عالمگیری، جلد5، صفحہ358، مطبوعہ: بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”انسان کے بالوں کی چوٹی بنا کر عورت اپنے بالوں میں گوندھے یہ حرام ہے۔ حدیث میں اس پر لعنت آئی ہے بلکہ اس پر بھی لعنت جس نے کسی دوسری عورت کے سر میں ایسی چوٹی گوندھی اور اگر وہ بال جس کی چوٹی بنائی گئی خود اسی عورت کے ہیں جس کے سر میں جوڑی گئی جب بھی ناجائز اور اگر اون یا سیاہ تاگے کی چوٹی بنا کر لگائے تو اس کی ممانعت نہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ596، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی رضویہ میں ہے "شرع مطہر میں جس طرح گناہ سے بچنا فرض ہے یونہی مواضع تہمت سے احتراز ضرور ہے اور بلاوجہ شرعی اپنے اوپر دروازہ طعن کھولنا ناجائز اور مسلمانوں کو اپنی غیبت و بدگوئی میں مبتلا کرنے کے اسباب کا ارتکاب ممنوع اور انہیں اپنے سے نفرت دلانا قبیح وشنیع۔ احادیث واقوالِ ائمہ دین سے اس پر صدہا دلائل ہیں۔" (فتاوی رضویہ، جلد04، صفحہ 554، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے "جہاں ان مفاسد کا اظہار باعثِ ضرر و خرابیِ ہمسائگاں ہوگا، توناجائز، یہ باعثِ فتنہ ہوا، اور فتنہ حرام " (رضویہ، ج19، ص501، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4412

تاریخ اجراء: 15جمادی الاولی1447 ھ/07نومبر2025 ء