کیا اسلامی بہنیں محفل میں نعرے لگواسکتی ہیں؟

خواتین کا محفل میں نعرے لگانا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اسلامی بہنوں کا محفل میں نعرے لگانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اسلامی بہنوں کا محافل میں آواز کے پردے کا خیال کرتے ہوئے نعرے لگانا جائز ہے، یعنی جس جگہ محفل ہورہی ہے اس کی مناسبت سے اس چیز کا خیال رکھ کر نعرے لگائے جائیں کہ ان کی آوازغیرمحرم تک نہ پہنچے۔

علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

نجيز الكلام مع النّساء للأجانب ومحاورتهنّ عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ ولا تمطيطها ولا تليینها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم ومن ھذا لم یجز ان تؤذن المراۃ

ترجمہ: ہم وقت ضرورت اجنبی عورتوں سے کلام کو جائز سمجھتے ہیں، البتہ یہ جائز قرار نہیں دیتے کہ وہ اپنی آوازیں بلند کریں، گفتگو کو بڑھائیں، نرم لہجہ رکھیں یا مبالغہ کریں، کیونکہ اس طرح تو مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کو ابھارنا ہے، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، ج 01، ص 406، الناشر: دار الفكر - بيروت)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ عورتیں باہم گلا ملا کر مَولود شریف پڑھتی ہیں اور ان کی آوازیں غیر مرد باہر سنتے ہیں تو اب ان کا اس طریقہ سے مَولود شریف پڑھنا ان کے حق میں باعث ثواب کا ہے یا کیا؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”عورتوں کا اس طرح پڑھنا کہ ان کی آواز نامحرم سنیں، باعثِ ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج 22، ص 245، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3172

تاریخ اجراء: 07 ربیع الثانی 1446ھ / 11 اکتوبر 2024ء