حیض میں آیت کریمہ پڑھنا

عورت مخصوص ایام میں آیتِ کریمہ پڑھ سکتی ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی عورت روزانہ ذکر کی کچھ تسبیحات مثلاً کلمۂ طیبہ، درودِ پاک اور آیتِ کریمہ یعنی﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن﴾ پڑھتی ہو اور اس پڑھنے سے کسی مقصد کا حصول مطلوب نہ ہو، بلکہ محض حصولِ ثواب کے لئے پڑھنے کی روٹین بنائی ہوئی ہو، تو کیا وہ مخصوص ایام میں بھی آیتِ کریمہ کو ذکر کی نیت سے پڑھ سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں قرآن کی آیت کی نیت سے یا بغیر کسی نیت کے پڑھنا ناجائز ہے کہ جب کوئی نیت نہیں تو ظاہراً یہ قرآن کی آیت پڑھنا ہی شمار ہوگا، البتہ اگر تلاوت ِ آیت کے طور پر نہیں بلکہ خاص ذکر و ثناء یا دعا کی نیت سے آیتِ کریمہ پڑھنا ہو تو شرعا جائز ہے۔

اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مخصوص ایام میں یا حالتِ جنابت میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں، لیکن جن قرآنی آیات میں ذکر، دعا یا ثناء کا معنی موجود ہو، ان کو اگر تلاوتِ قرآن کی نیت کئے بغیر محض ذکر و دعا و غیرہا کی نیت سے پڑھا جائے، تو اب نیت کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے حکم بھی تبدیل ہو جائے گا اور ایسی صورت میں ان کو پڑھنا، جائز قرار پائے گا اور جن میں یہ معانی موجود نہ ہوں، ان کو بہر صورت ایسی حالت میں پڑھنا جائز نہیں، یونہی جن آیات میں ذکر و دعا کا معنی موجود ہو، ان آیات کو کسی مقصد کے حصول کے لئے بطورِ وظیفہ پڑھنا بھی جائز نہیں، کیونکہ بطورِ وظیفہ پڑھنا، ان کو دعا و ثناء کی بجائے، قرآنیت (تلاوت ِ قرآنِ کریم)کے لئے متعین کر دیتا ہے۔

آیتِ کریمہ ذکر و ثناء کے معانی پر مشتمل ہے اور حديثِ پاک میں اسے بطورِ دعا بھی ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:

”عن سعد، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: دعوة ذي النون إذ دعا وهو في بطن الحوت: لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين، فإنه لم يدع بها رجل مسلم في شيء قط إلا استجاب اللہ له“

ترجمہ: حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’حضرت یونس(علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام)نے مچھلی کے پیٹ میں جو دعا مانگی، وہ یہ تھی:

(لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ)

جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کسی مقصد کے لئے دعا مانگے، تواللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔(جامع ترمذی، کتاب الدعوات، جلد 5، صفحہ 529، مطبوعہ مطبعۃ مصطفی البابی، مصر )

دعا و ثناء پر مشتمل آیات کو ذکر و دعا وغیرہ کی نیت سے پڑھنے پر حکم کی تبدیلی کے متعلق فقیہ ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 373ھ/983ء) لکھتےہیں:

”ولو أنه قرأ الفاتحة على سبيل الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم يرد بها القراءة فلا بأس به“

 ترجمہ: اگر کوئی شخص سورۃ الفاتحہ یا قرآنِ پاک کی دیگر وہ آیات جو کہ دعا کے معنی پر مشتمل ہیں، بطورِ دعا پڑھے اور اس میں قراءت کی نیت نہ کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (عیون المسائل، باب الاستحسان، صفحہ 475، مطبوعہ مطبعۃ اسعد، بغداد)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ”ایسی جگہ تغییرِ قصد سے تغییرِ حکم ہو جاتا ہے ولہذا جنب کو آیات دعا وثنا نہ نیت قرآن بلکہ بہ نیت ذکر ودعا پڑھنا جائز ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 338، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہارشریعت میں ہے: ”اگر قرآن کی آیت دُعا کی نیت سے یا تبرک کے لیے جیسے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر کو یا چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یا خبرِ پریشان پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا یا بہ نیتِ ثنا پوری سورہ فاتحہ یا آیۃ الکرسی یا سورہ حشر کی پچھلی تین آیتیں ھُوَاللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سے آخر سورۃ تک پڑھیں اور ان سب صورتوں میں قرآن کی نیت نہ ہو توکچھ حَرَج نہیں۔ یوہیں تینوں قل بلا لفظ قل بہ نیتِ ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظِ قُل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیت ثنا ہی ہو کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے نیت کو کچھ دخل نہیں۔ (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ 02، صفحہ 326، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ایسی آیات کو مخصوص ایام میں بطورِ وظیفہ پڑھنے کی ممانعت کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”عمل میں تین نیتیں ہوتی ہیں۔(1) دعا جیسے حزب البحر، حرزیمانی (2) اللہ عزوجل کے نام و کلام سے کسی مطلبِ خاص میں اِستعانت، جیسے عمل سورہ یٰس و سورہ مزمل صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (3) اعداد معینہ خواہ ایام مقدرہ تک اس غرض سے اس کی تکرار کہ عمل میں آجائے حاکم ہوجائے اُس کے موکلات تابع ہوجائیں اس تیسری نیت۔۔۔سے وہ آیت و سورت بھی جائز نہیں ہوسکتی، جس میں صرف معنی دعا وثنا ہی ہے کہ اولا یہ نیت، نیت دعا و ثنا نہیں، ثانیا اس میں خود آیت وسورت ہی کی تکرار مقصود ہوتی ہے کہ اس کے خدام مطیع ہوں تو نیت قرآنیت اُس میں لازم ہے۔ رہیں پہلی دو نیتیں جب وہ آیات معنی دعا سے خالی ہیں تو نیت اولٰی ناممکن اور نیت ثانیہ عین نیت قرآن ہے اور بقصد قرآن اُسے ایک حرف روا نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 1115، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9609

تاریخ اجراء:  16  جمادی الثانی 1447ھ/08 نومبر 2025ء