
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا عورت حیض کے دنوں میں مہندی لگوا سکتی ہے اور ناخن کاٹ سکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حیض کے ایام میں مہندی لگوانا، جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ یوں ہی ان دنوں میں ناخن کاٹنا بھی جائز ہے، البتہ جب حیض کا خون ختم ہونے پر غسل واجب ہو جائے تو اس وقت غسل سے پہلے ناخن کاٹنے سے بچنا چاہیے؛ کیونکہ اس صورت میں عورت جنبی کے حکم میں ہوتی ہے اور حالت جنابت میں ناخن کاٹنا مکروہ ہے۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث پاک میں ہے:
ان امرأة سألت عائشة قالت: تختضب الحائض؟ فقالت: قد كنا عند النبي صلى الله عليه و سلم و نحن نختضب، فلم يكن ينهانا عنه
ترجمہ: ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا: کیا حیض والی عورت خضاب لگا سکتی ہے؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں ہوتی تھیں اور خضاب لگاتی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں اس سے منع نہیں فرمایا کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجه، أبواب الطهارة وسننها، باب الحائض تختضب، جلد 1، صفحہ 518، حدیث 656، دار الجیل، بیروت)
تفہیم المسائل میں ہے: ”خواتین ایام مخصوص میں مہندی لگا سکتی ہیں، اپنے ہاتھ پاؤں پر یا بالوں پر، اور ایام گزرنے پر جب وہ غسل کریں گی تو پاک ہو جائیں گی۔“ (تفہیم المسائل، جلد 2، صفحہ 69، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، کراچی)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340 ھ / 1921 ء) لکھتے ہیں: ”عورت حیض کی وجہ سے اس وقت حدث والی ہو گی جب حیض منقطع ہو جائے، اس سے پہلے نہ اسے حدث ہے، نہ حکم غسل۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 3، صفحہ 254، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مفتی مصر علامہ سید احمد بن محمد طحطاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1231 ھ/ 1815 ء) لکھتے ہیں:
قص الأظفار هو إزالة ما يزيد على ما يلابس رأس الإصبع من الظفر بمقص أو سكين أو غيرهما و يكره بالأسنان لأنه يورث البرص و الجنون و في حالة الجناية و كذا إزالة الشعر لما روى خالد مرفوعا من تنور قبل أن يغتسل جاءته كل شعرة فتقول يا رب سله لم ضيعني و لم يغسلني
ترجمہ: جو ناخن کا حصہ انگلی کے سرے سے متصل حصے پر زائد ہو، اسے قینچی، چاقو یا کسی اور چیز سے زائل کر دینا، ناخنوں کا کاٹنا ہے اور دانتوں سے (انہیں کاٹنا) مکروہ ہے؛ کیونکہ یہ برص اور جنون کا باعث ہوتا ہے، اور جنابت کی حالت میں ناخن کاٹنا اور یوں ہی بال صاف کرنا مکروہ ہے، اس روایت کی وجہ سے جو حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص غسل سے پہلے بال صاف کرے، تو ہر بال آ کر اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا: یا رب! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں تلف کیا درحالیکہ اس نے مجھے دھویا نہ تھا؟۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، کتاب الصلاة، باب الجمعة، جلد 1، صفحه 525، دار الکتب العلمیة، بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
حلق الشعر حالة الجنابة مكروه و كذا قص الأظافير كذا في الغرائب
ترجمہ: جنابت کی حالت میں بال مونڈنا مکروہ ہے، اور اسی طرح ناخنوں کا کاٹنا بھی مکروہ ہے، ایسا ہی غرائب میں ہے۔(فتاوی ھندية، كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان و الخصاء ...، جلد 5، صفحه 358، دار الفكر، بیروت)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367 ھ / 1948 ء) لکھتے ہیں: ”جنابت کی حالت میں نہ بال مونڈائے اور نہ ناخن ترشوائے کہ یہ مکروہ ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 585، مکتبة المدینہ، کراچی)
کتاب "خواتین کے مخصوص مسائل" میں ہے: ”حیض و نفاس کی حالت میں بال یا ناخن کاٹنا جائز ہے۔ ہاں جب حیض یا نفاس ختم ہو کر غسل واجب ہو گیا، اس کے بعد غسل کرنے سے پہلے پہلے بال یا ناخن کاٹنے سے بچنا چاہیے کہ اس وقت اس کی حالت جنبی شخص کی طرح ہے اور حالت جنابت میں غسل سے پہلے بال یا ناخن کاٹنا مکروہ ہے۔“ (خواتین کے مخصوص مسائل، صفحہ 134، مکتبۃالمدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-773
تاریخ اجراء: 01 ذو الحجة الحرام 1446ھ / 29 مئی 2025ء