
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کوئی عورت حاملہ ہے، حمل کے دوران ہی اسے خون بھی آجاتا ہے، تو کیا یہ خون حیض شمار ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حاملہ عورت کو اگر دورانِ حمل خون آئے، تو وہ خون حیض نہیں،بلکہ استحاضہ یعنی بیماری کا خون ہوگا۔ جب یہ خون حیض کا نہیں تو اس حالت میں قرآن پاک بھی پڑھ سکتے ہیں، اور اس کی وجہ سے نماز بھی معاف نہیں ہوگی، بلکہ عام دنوں کی طرح اس دوران بھی عورت پر نماز فرض ہوگی۔ بلا اجازت شرعی نماز قضا کرے گی تو گنہگار ہو گی۔ استحاضہ کا خون آنے کی وجہ سے غسل فرض نہیں ہوتا، البتہ یہ خون ناپاک ضرور ہوتا ہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور جسم یا کپڑوں کے جس حصے پر لگے اسے بھی ناپاک کر دیتا ہے، لہذا جس جگہ خون لگا ہو، عورت جسم اور کپڑوں کے اس حصے کو پاک کر کے فقط وضو کرکے بھی نماز ادا کر سکتی ہے۔
حیض، نفاس استحاضہ وغیرہ سے متعلق تفصیلی فرض علوم اور مسائل جاننے کیلئے دار الافتاء اہلسنت کی مطبوعہ کتاب ”خواتین کے مخصوص مسائل“پڑھیں، یہ کتاب مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی برانچ سے خریدی جا سکتی ہے نیز لنک کے ذریعے آن لائن پڑھنے کے ساتھ ساتھ بالکل فری ڈاون لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2137
تاریخ اجراء: 24 رجب المرجب 1446ھ / 25 جنوری 2025ء