حجاب پہنی عورت کی ٹو ڈی یا تھری ڈی تصویر پرنٹ کروانا کیسا؟

عورت کی تصویر کے ذریعے تشہیر کرنا

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ کیا کسی خاتون کے ماڈل کی 2D یا 3Dڈیجیٹل تصویر بنوانا (جس میں وہ حجاب میں ہو یعنی اس کا سر، گردن اورگلے کا حصہ تو ڈھکا ہوا ہو لیکن چہرہ کھلا ہو) جائز ہے؟ تاکہ اسےمسلمان عورت کے طور پر پوسٹرز میں پرنٹ کروا کر پروڈکٹ کی تشہیر کے لئے استعمال کیا جا سکے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

کسی خاتون کی2D یا3D  تصویر خاص پوسٹرز وغیرہ میں استعمال کے لئے بنوانا اور جانتے بوجھتے بنانا، چھاپنا اور چھپوانا ناجائز و گناہ ہے، یونہی اس تصویر کو اشتہار کے لئے استعمال کرنابھی ممنوع وناجائز ہے۔

(1) مذکورہ عمل کےناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل تصویر پر ابتداءً حرام تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا، لیکن جب اس کا پرنٹ نکال کر کسی چیز پر چھاپ دیا جائے، تو وہ حرام تصویر کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے، لہٰذا ایسی تصویر کو خاص کسی چیز پر چھاپنے کے ارادے سے بنوانا اور جانتے بوجھتے بنانا، چھاپنا اور چھپوانا سب ہی ناجائز و گناہ ہوتا ہے اور چونکہ پوچھی گئی صورت میں بھی تصویر بنوانے کا مقصد یہی ہے ،لہذا اس کا بھی وہی حکم ہوگا۔

(2) ممانعت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بیان کردہ صورت میں حجاب کے باوجود عورت کا چہرہ کھلا رکھا جائے گا، حالانکہ فی زمانہ فتنے کے سبب عورت کے چہرے کا پردہ بھی واجب ہے کہ بے حیائی کے بے شمار اسباب و ذرائع فی زمانہ موجود ہونے کے بعد اکثر لوگوں کے دل و دماغ میں جنسی لذات وخواہشات کا جو طومار برپا ہے وہ سب جانتے ہیں اور ایسے حالات میں چہرے کا پردہ نہایت ضروری ہوجاتا ہے۔ فقہاء کرام نے تو کئی سو سال پہلے کے حالات کے پیش نظر چہرے کے پردے کو واجب قرار دیدیا تھا۔

(3) تیسری وجہ اسلامی اقدار سے تعلق رکھتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو ”عورت“ یعنی چھپانے اور حفاظت میں رکھنے کی چیز قرار دیا ہے، نہ کہ توجہ کھینچنے کا ذریعہ یا تشہیر کا آلہ بنایا ہے۔ شریعت نے عورت کو پردے، حیاء اور وقار کے سائےمیں رکھ کر ایک منفرد عزت کا مقام عطا فرمایا ہے۔ مگر افسوس کہ موجودہ دور میں اشتہارات، مارکیٹنگ اور میڈیا کی دنیا میں عورت کو محض توجہ کھینچنے کا ذریعہ اور تشہیر کا ٹول بنا دیا گیا ہے، جہاں اکثر اشتہارات اور ایڈز میں عورت اور اس کی تصویر کو ترجیحی بنیادوں میں شامل کرکے مرکزی حیثیت دی جاتی ہے، تاکہ صارفین کی نگاہیں زیادہ سے زیادہ اس جانب مبذول ہوں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے بلکہ نسوانی عزت و وقار سے بھی صریح متصادم ہے۔

تصویر سازی کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ذی روح کی تصویر بنانا، بنوانا، اعزازاً اپنے پاس رکھنا سب حرام فرمایا ہے اور اس پر سخت سخت وعیدیں ارشاد کیں اور ان کے دور کرنے، مٹانے کاحکم دیا۔ احادیث اس بارے میں حدِ تواترپر ہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 21، ص 426، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

فی زمانہ عورت کو چہرے کے پردے کا بھی حکم دیا جائے گا، اس حکم اور اس کی وجوہات کے متعلق ردالمحتار میں ہے:

تمنع من الكشف لخوف أن يرى الرجال وجهها فتقع الفتنة لأنه مع الكشف قد يقع النظر إليها بشهوة

عورت کو چہرہ کھولنے سے منع کیا جائے گا، اس اندیشہ کی وجہ سے کہ مرد اس کے چہرے کو دیکھیں اور فتنے میں پڑ جائیں۔ کیونکہ چہرہ کھلا ہونے کے ساتھ کبھی اس پر شہوت کے ساتھ نظر پڑ جائے گی۔ (رد المحتار، ج 01، ص 406، دار الفکر، بیروت)

چہرے کے پردے کے حکم کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ”اس طرح رفتہ رفتہ حاملان شریعت وحکمائے امت نے حکم حجاب دیا اور چہرہ چھپانا کہ صدر اول میں واجب نہ تھا واجب کردیا۔ نہایہ میں ہے: سدل الشیئ علی وجھھا واجب علیھا۔ چہرے پر پردہ لٹکانا عورت پر واجب ہے۔ (ت)“ (فتاوی رضویہ، ج 14، ص 551، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وقار الفتاوی میں ہے ”احکام نماز میں جن اعضاء کو چھپانا فرض ہے، اس میں چہرہ داخل نہیں ہے، مگر خوف فتنہ کی وجہ سے قرآن کریم میں عورتوں کو حکم دیا:﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ﴾یعنی عورتیں اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔ اصل فتنہ عورتوں کو دیکھنے سے شروع ہوتا ہے۔“ (وقار الفتاوی، ج 03، ص 145، بزم وقار الدین، کراچی)

عورت کے عور ت ہونے کے متعلق سنن ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان

عورت عورت یعنی چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانک کر دیکھتا ہے۔ (سنن ترمذی، ج 03، ص 468، رقم: 1173، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0656

تاریخ اجراء: 26ربیع الثانی 1447ھ/20اکتوبر 2025 ء