
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر عورت کفریہ جملہ بول دے، تو کیا اس پر بھی تجدیدِ نکاح لازم ہوگا؟ نیز اگر تجدید نکاح لازم ہوا اور وہ عورت تجدیدِ نکاح نہ کرنا چاہے، تو کیا اس کا نکاح ختم ہو جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عورت سے اگر معاذ اللہ! ایسا قول، فعل سرزد ہوجائے کہ جس کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتو بھی عورت شوہر کے نکاح سے نہیں نکلتی، اس کےلئے توبہ اور تجدیدِ ایمان کے بعد کسی اور سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں۔ ہاں! چونکہ یہ ارتداد کے سبب اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا تجدیدِ نکاح کرے گی لیکن یہ تجدیدِ نکاح سابقہ شوہر (یعنی ارتداد سے پہلے جس کے نکاح میں تھی) سے ہی کرے گی، کسی اور مرد سے نکاح نہیں کرسکتی۔
امیر اہلسنت مدظلہ العالی کی مایہ ناز تصنیف ”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“ میں ہے: ’’سُوال: اگرعورت مُرتَدہ ہو گئی تو شوہر کے نِکاح میں رہی یا نہیں؟ جواب: مرتدہ عورت نکاح سے نہیں نکلتی۔ چنانچہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی بارگاہ میں کچھ اِس طرح سوال ہوا کہ حکمِ شریعت سُن کر ہِندہ جو کہ شادی شدہ ہے نے غصّہ میں آ کر یا تو یہ کہا: ’’چُولہے میں جائے ایسی شریعت ‘‘ یا پھر یوں کہا: ”مری پڑے ایسی شریعت“ الجواب: ہِندہ نے پہلا فِقرہ کہا ہو خواہ دوسرا، (دونوں جُملے صریح کفریات ہیں لہٰذا) ہر طرح اس کا ایمان جاتا رہا کہ اِس نے شَرعِ مُطَہَّرہ کی توہین کی مگر ہِندہ (مُرتدہ ہوجانے کے باوُجُود) نکاح سے نہ نکلی ، نہ اُسے رَوا (یعنی جائز )ہے کہ بعدِ اسلام کسی دوسرے سے نکاح کر لے۔ ہاں (چُونکہ وہ اپنے ارتِداد کے سبب اپنے شوہر پر حرام ہو چکی ہے لہٰذا) بعدِ(قبولِ) اسلام سابقہ شوہر ہی سے تجدیدِ نکاح پر مجبور کی جائے گی۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۱۲ ص ۲۶۲ ۔ ۲۶۳ مُلَخَّصاً)‘‘ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 631، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2246
تاریخ اجراء: 17شوال المکرم1446ھ/16اپریل2025ء