
فتوی نمبر: HAB-0388
تاریخ اجراء:05 محرم الحرام 1446ھ/12 جولائی 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ:
(1) کیا اسلامی بہن کی نماز ادا ہوجانے کے لیے اذان سننا شرط ہوتی ہے ؟ یعنی اگر وہ نماز کا وقت شروع ہوجاتے ہی اذان سے پہلے اپنی نماز مکمل کرلے ،تو کیا نماز ہوجائے گی یا اس کو دوبارہ ادا کرنا ہوگی ؟
(2) جب تک جمعہ کے دن جمعہ کی نماز مسجد میں ختم نہ ہوجائے عورتیں گھروں میں ظہر کی نماز نہ پڑھیں، اگر پڑھیں گی تو ان کی نماز نہیں ہوگی! کیا یہ بات درست ہے ؟
(3) مَردوں کو فجر آخری وقت میں اور عورتوں کومغرب آخری وقت میں پڑھنی چاہیے۔کیا یہ بات درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھے گئے تمام سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :
(1) عورتوں کے لیے چونکہ اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنے کا حکم ہے،لہٰذا یہ وقت ِ نماز شروع ہوجانے کے بعد اپنے گھر میں جب بھی وقت کے اندرنماز پڑھ لیں ، نماز ہوجائے گی،اس کے لیے اذان ہوجانا یا اس کا سننا شرط نہیں،البتہ عورتوں کے لیے فرض نماز ادا کرنے کا افضل و بہتر وقت یہ ہے کہ فجرکی نماز اندھیرے میں یعنی اول وقت میں پڑھیں اورباقی نمازوں میں بہتریہ ہے کہ مردوں کی جماعت ختم ہونے کا انتظار کریں،جب مردوں کی جماعت ہوجائے،تو اب اپنی فرض نماز ادا کریں۔
(2)جمعہ والے دن بھی عورت کو نمازِ ظہر اسی وقت پڑھنی چاہیے جب مردوں کی نماز ِ جمعہ کی جماعت ختم ہوجائے ،یہی افضل ہے ،اگر کسی عورت نے اس سے پہلے نمازِ ظہر ادا کرلی، تو یہ نماز ہوجائے گی،ہاں ایسا کرنا خلافِ اولیٰ ہے ،لہٰذا یہ کہنا کہ ” اگر عورتیں نماز ِ جمعہ کی جماعت ختم ہوجانے سے پہلے نمازِ ظہر پڑھیں گی تو نماز ہی نہیں ہوگی“بالکل درست نہیں ۔
(3)یہ بات بھی مطلقاً درست نہیں،بلکہ اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ ہے کہ عورتوں کی نمازِ مغرب میں تو وہی حکم ہے جو اوپر گزرچکا کہ مردوں کی جماعت ختم ہوجانے کے بعد ادا کرنا افضل ہے اور بلا عذر مغرب کی نمازمیں اتنی تاخیر کرناکہ ستارے گُتھ جائیں(چھوٹے بڑے سبھی ستارے ظاہرہوجائیں) یہ مکروہ ِتحریمی ہے ، ہاں مردکے لیے فجر میں تاخیر مستحب ہے، یعنی اسفار میں (جب خوب اُجالا ہو) شروع کرے ، مگر ایسا وقت ہونا مستحب ہےکہ چالیس سے ساٹھ آیت تک ترتیل کے ساتھ پڑھ سکے ، پھر سلام پھیرنے کے بعد اتنا وقت باقی رہے کہ اگر نماز میں فساد ظاہر ہو تو طہارت کرکے ترتیل کے ساتھ چالیس سے ساٹھ آیت تک دوبارہ پڑھ سکے اور اتنی تاخیر مکروہ ہے کہ طلوع آفتاب کا شک ہو جائے۔
نمازِ فجر کے مستحب وقت کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے :” يستحب تأخير الفجر ولا يؤخرها بحيث يقع الشك في طلوع الشمس بل يسفر بها بحيث لو ظهر فساد صلاته يمكنه أن يعيدها في الوقت بقراءة مستحبة “ترجمہ:فجر کو تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے اور اس میں اتنی تاخیر نہیں کی جائے گی کہ سورج طلوع ہونے میں شک ہوجائے ،بلکہ اس کو اس قدر روشنی میں ادا کیا جائے گا کہ نماز کا فساد ظاہر ہو تو اس کو وقت کے اندر ہی مستحب قراءت کے ساتھ دوبارہ دہرانا ، ممکن ہو ۔(الفتاوی الھندیہ،ج01،ص 52،دار الفکر ،بیروت)
بہار شریعت میں ہے :” فجر میں تاخیر مستحب ہے، یعنی اسفار میں (جب خوب اُجالا ہو یعنی زمین روشن ہو جائے) شروع کرے ،مگر ایسا وقت ہونا مستحب ہےکہ چالیس سے ساٹھ آیت تک ترتیل کے ساتھ پڑھ سکے ،پھر سلام پھیرنے کے بعد اتنا وقت باقی رہے کہ اگر نماز میں فساد ظاہر ہو ،تو طہارت کرکے ترتیل کے ساتھ چالیس سے ساٹھ آیت تک دوبارہ پڑھ سکے اور اتنی تاخیر مکروہ ہے کہ طلوع آفتاب کا شک ہو جائے۔ “(بھار شریعت،ج01،ص 451، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
عورتوں کے لیے فرض نمازوں کا مستحب وقت کیا ہے ؟اس کے متعلق بحر الرائق اور مجمع الانہر میں مبتغیٰ کے حوالے سے ہے:” الأفضل للمرأة في الفجر الغلس وفي غيرها الانتظار إلى فراغ الرجال عن الجماعة“ ترجمہ:عورت کے لیے فجر میں غلس یعنی اول وقت افضل ہے اور فجر کے علاوہ دوسری نمازوں میں مردوں کے جماعت سے فارغ ہوجانے کا انتظار کرنا افضل ہے ۔(البحر الرائق ،ج01،ص 260،دار الکتاب الاسلامی)(مجمع الانھر ،ج01،ص 71،دار احیاء التراث العربی)
در مختار میں ہے :”(والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار والختم به إلا لحاج بمزدلفة) فالتغليس أفضل كمرأة مطلقا. وفي غير الفجر الأفضل لها انتظار فراغ الجماعة “ترجمہ:اور مرد کے لیے فجر کو روشنی میں شروع کرنا اور روشنی ہی میں ختم کرنا مستحب ہے سوائے مزدلفہ میں موجود حاجی کے تو اس کے لیے اسی طرح مطلقاً اندھیرے میں فجر پڑھنا افضل ہے جیسے عورت کے لیے افضل ہے اورفجر کے علاوہ دیگر نمازوں میں عورت کے لیے مردوں کے جماعت سے فارغ ہونے کا انتظار کرنا افضل ہے ۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے :” (قوله: مطلقا) أي ولو في غير مزدلفة لبناء حالهن على الستر وهو في الظلام أتم“ترجمہ: شارح علیہ الرحمۃ کا قول:”مطلقا“ یعنی اگرچہ عورت مزدلفہ کے علاوہ کہیں اور موجود ہو تب بھی غلس ہی افضل ہے، کیونکہ عورتوں کا حال ستر پر مبنی ہے اور وہ اندھیرے میں زیادہ تام ہے ۔(رد المحتار علی المختار، ج01،ص 366،دار الفکر ،بیروت)
بہارشریعت میں ہے:”عورتوں کے لیے ہمیشہ فجر کی نماز غلس (یعنی اول وقت ) میں مستحب ہے اور باقی نمازوں میں بہتریہ ہے کہ مردوں کی جماعت کا انتظار کریں،جب جماعت ہوچکے تو پڑھیں۔“(بھارشریعت جلد1، حصہ3، صفحہ451،مکتبۃ المدینہ کراچی)
مغرب میں ستاروں کے گتھ جانے تک کی تاخیر مکروہ تحریمی ہے ،چنانچہ بہار شریعت ہی میں ہے :”اگر بغیر عذر سفر و مرض وغیرہ اتنی تاخیر کی کہ ستارے گتھ گئے تو مکروہ تحریمی ۔“(بھارشریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ453، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم