Aurat Maxi Mein Namaz Parh Sakti Hai?

 

عورت میکسی میں نماز پڑھ سکتی ہے؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: MUI-0363

تاریخ اجراء:  28ربیع الاول1446 ھ/02اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورتیں فل آستین کی موٹی میکسی پہن کر نماز پڑھ سکتی ہیں ؟ جبکہ اس کے اندر شلوار وغیرہ نہ پہنے ہوں، مگر وہ اتنی لمبی ہوتی ہے کہ ٹخنے چھپ جاتے ہیں۔

   میکسی وہ لباس  ہے جسے  عموماً سوتے وقت پہنا جاتا ہے۔ نیز بعض علاقوں میں عورتیں اس لباس کو کام کاج اور صفائی کرتے وقت بھی پہنتی ہیں،تاکہ میل کچیل لگنا ہو تو اسی لباس میں لگے،دیگر اچھے کپڑے گندے نہ ہوں۔ نیز اس لباس میں معزز لوگوں کے سامنے آنا بھی پسند نہیں کرتیں، جبکہ بعض علاقوں میں عورتیں اسے عام لباسوں کی طرح ہی پہنتی ہیں اور اسے پہن کر معزز لوگوں کے سامنے اور گھر سے باہر بھی جاتی ہیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

                                                                                                                                       فل آستین کی اتنی موٹی میکسی کہ جس میں بدن کی رنگت ظاہر نہ ہوتی ہو اور لمبائی میں وہ نیچے پاؤں تک ہو، تو اسے پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے، اگرچہ اس کے نیچے شلوار نہ پہنی گئی ہو، جبکہ سر اور اس کے بال بھی اچھی طرح چھپے ہوئے ہوں، کیونکہ نماز میں جو ستر عورت فرض ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ادھر اُدھر سے ستر نہ دکھ سکے۔ اور میکسی یا اس طرح کا دوسرا لمبا لباس پہننے سے بھی یہ ستر عورت حاصل ہو جاتا ہے، لہذا اس طرح کا لباس پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ البتہ عورت کے لیےبھی مستحب یہ ہے کہ کم از کم تین کپڑوں قمیص، شلوار اور اوڑھنی میں نماز پڑھے۔

                                                                                                                                        نیز اگر وہ میکسی ایسی ہے کہ جسے کام کاج کے وقت ہی پہنا جاتا ہو اور اسے پہن کر معزز لوگوں کے سامنے نہیں جایا جاتا، تو دوسرا اچھا لباس ہوتے ہوئے اس طرح کی میکسی پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہوگا،کیونکہ وہ لباس جو کام کاج کے وقت پہنا جاتا ہے جسے میل کچیل سے بچایا نہیں جاتا  اور اسے پہن کر معزز لوگوں کے سامنے نہیں جاتے، تو دوسرا اچھا لباس ہوتے ہوئے ایسا لباس پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے،البتہ اگر ایسا نہیں یعنی خاص کام کاج کے وقت پہنا جانے والا لباس نہیں جیسا کہ ہند کے بعض علاقوں میں اسے عام لباسوں کی طرح ہی پہنا جاتا ہے اور اسے پہن کر معزز لوگوں کے سامنے بھی جایا جاتا ہے، تو اب ایسی میکسی میں نماز  مکروہ تنزیہی بھی نہیں۔

   عورت کا سر اور پورا بدن چھپا ہوا ہو تو صرف ایک کپڑے میں بھی نماز جائز ہے۔ جیسا کہ تحفۃ الفقہا میں ہے: ’’ وإن صلت في ثوب واحد متوشحة به أو قميص واحد صفيق لا يجزئها إذا كان رأسها أو بعض جسدها مكشوفا إلا إذا سترت بالثوب الواحد رأسها وجميع جسدها سوى الوجه والكفين فحينئذ يجوز.‘‘ یعنی اگر عورت ایک کپڑے میں توشح کر کے نماز پڑھے یا صرف ایک موٹی قمیص پہن کر نماز پڑھے تو یہ جائز نہیں جبکہ اس کا سر یا بعض بدن کھلا ہو۔ البتہ اگر ایک ہی کپڑے سے سر اور پورا بدن سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے چھپا لے تو اب نماز جائز ہے۔(تحفة الفقهاء، جلد 1، صفحة 146، دار الكتب العلميہ، بيروت)

   ستر عورت سے مراد یہ ہے کہ ادھر اُدھر سے نہ دِکھ سکے، اگرچہ نیچے سے دیکھنے پر دکھتا ہو۔ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ، در مختار اور تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے، واللفظ للآخر:’’ولو صلى في قميص واحد لا يرى أحد عورته لكن لو نظر إليه إنسان من تحته رأى عورته لا تفسد صلاته؛ لأنه ليس بكاشف للعورة والأفضل أن يصلي في ثوبين لقوله عليه الصلاة والسلام: إذا كان لأحدكم ثوبان فليصل‘‘ یعنی اگر کسی نے ایک ایسی قمیص میں نماز ادا کی جس سے کوئی ستر نہ دیکھ سکے لیکن اگر کوئی نیچے سے نظر کرے تو ستر دیکھ لے تو نماز فاسد نہ ہوگی، کیونکہ اس نے ستر عورت نہیں کھولا۔ مگر افضل ہے کہ دو کپڑوں میں نماز ادا کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو چاہیے کہ اسی میں نماز پڑھے۔(تبیین الحقائق، جلد 1، صفحۃ 95، المطبعۃ الکبری، قاھرہ)

   عورت کے لیے بھی کم از کم تین کپڑوں میں نماز پڑھنا مستحب ہے۔ جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’وأما المرأة فالمستحب لها أن تصلي في ثلاثة أثواب أيضا قميص وإزار ومقنعة فإن صلت في ثوبين جازت صلاتها. كذا في الخلاصة‘‘ یعنی رہی عورت تو اس کے لیے بھی مستحب ہے کہ تین کپڑوں میں نماز پڑھے، قمیص، شلوار اور اوڑھنی۔ اگر صرف دو (قمیص اور اوڑھنی) میں ہی نماز پڑھی تو بھی جائز ہے۔ جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔ (الفتاوي الهندية، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث، جلد 1، صفحۃ 59، دار الفكر، بيروت)

   کام کاج والے کپڑوں میں نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔ اس تعلق سے در مختار و رد المحتار میں ہے: ’’كره (صلاته في ثياب بذلة) يلبسها في بيته (ومهنة) أي خدمة، إن له غيرها.‘‘ یعنی کام کاج کے کپڑوں میں نماز مکروہ ہے، وہ کپڑے جو گھر میں پہنتا ہے، اور صنعت یعنی خدمت والے کپڑوں میں، جبکہ دوسرے کپڑے موجود ہوں۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’ما يلبسه في بيته ولا يذهب به إلى الأكابر والظاهر أن الكراهة تنزيهية‘‘  یعنی جو کپڑے صرف گھر میں پہنتا ہو اسے پہن کر اکابر کے پاس نہ جاتا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ کراہت تنزیہی ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحۃ 640، دار الفكر، بيروت) 

   اسی طرح فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے: ’’متون وشروح و فتاویٰ تمام کتبِ مذہب میں بلاخلافِ تصریح صاف ہے کہ ثیابِ ذِلَّت و مہنت یعنی وہ کپڑے جن کو آدمی اپنے گھر میں کام کاج کے وقت پہنے رہتا ہے جنہیں میل کچیل سے بچایا نہیں جاتا اُنہیں پہن کرنماز پڑھنی مکروہ ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد 7، صفحہ 377، رضا فاؤنڈیشن)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم