عورت کا لیزر سے زیرِ ناف بال ختم کروانا کیسا؟

خواتین کا لیزر کے ذریعے زیر ناف بالوں کو ختم کروانا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا میں اپنے پرائیویٹ پارٹ کے بالوں کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے لیزر ہیئر ریموول (Laser Hair Removal) کروا سکتی ہوں؟ کیونکہ یہ کام کلینکس میں کیا جاتا ہے اور اس دوران بیوٹیشن ستر کو دیکھتی ہے، تو کیا اسلام میں یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شرعی طور پر کسی عورت کے لیے دوسری عورت کے ستر کو بلا ضرورت دیکھنا یا دکھانا حرام ہے؛ کیونکہ حدیث پاک میں اس سے منع فرمایا گیا ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں بیوٹیشن کے سامنے ستر کھولنا اور بے پردگی کرتے ہوئے، لیزر ہیئر ریموول (Laser Hair Removal) کروانا ناجائز و گناہ ہے، اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ واضح رہے! غیر ضروری بالوں کو مستقل طور پر ختم کرنا شرعاً منع نہیں کہ اصل مقصود محض اس جگہ کی صفائی ہے ،وہ جس طرح سے بھی حاصل ہو۔ البتہ اس کے لیے ایسا طریقہ اپنانا، جس میں بے ستری ہو، وہ ممنوع و ناجائز ہے۔

صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، مسند احمد وغیرہ میں ہے:

ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل، و لا المرأة  إلى  عورة  المرأة

ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو دیکھے۔(صحيح مسلم، ‌‌كتاب الحيض،   باب تحريم النظر إلى العورات، جلد 1، صفحہ 183، حدیث 338، دار الطباعة العامرة، تركيا)

علامہ مظہر الدین حسین بن محمود مظہری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 727ھ / 1327ء) اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:

و اعلم أن نظر الرجل إلى عورة الرجل حرام، و عورة الرجل ما بين سرته إلى ركبتيه، و كذلك يحرم نظر المرأة إلى عورة المرأة، و عورة المرأة في حق المرأة ما بين سرتها وركبتيها، و عورة المرأة في حق محارمها كأبيها وابنها و غيرهما من رجال أقاربها ممن يحرم النكاح بينهما ما بين السرة و الركبة أيضا، و أما المرأة في حق الرجل الأجنبي فجميع بدنها عورة إلا وجهها و كفيها، و لا يجوز النظر إلى وجهها وكفيها أيضا إلا عند حاجة

ترجمہ: اور جان لو کہ مرد کا مرد کے ستر کی طرف دیکھنا حرام ہے، اور مرد کا ستر اس کی ناف سے گھٹنوں تک کا حصۂ بدن ہے۔ اسی طرح عورت کا عورت کے ستر کی طرف دیکھنا حرام ہے، اور عورت کا ستر عورت کے حق میں اس کی ناف سے گھٹنوں تک کا حصۂ بدن ہے، اور عورت کا ستر اس کے محارم، جیسے اس کا باپ، بیٹا وغیرہ قریبی مرد رشتہ دار جن کے ساتھ نکاح (ہمیشہ کے لیے) حرام ہوتا ہے، ان کے حق میں بھی ناف سے گھٹنوں تک ہے۔ رہا اجنبی (غیر محرم) مرد کے حق میں عورت کا ستر تو اس کا مکمل بدن ستر ہے، سوائے اس کے چہرے اور ہتھیلیوں کے، اور اس کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرنا بھی جائز نہیں، ما سوائے ضرورت کے وقت۔ (المفاتيح في شرح المصابيح، كتاب النكاح، باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات، جلد 4، صفحہ 19، دار النوادر، كويت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”حلق و قصر و نتف و تنور یعنی مونڈنا،کترنا، اکھیڑنا، نورہ لگانا سب صورتیں جائز ہیں کہ مقصود اس موضع کا پاک کرنا ہے اور وہ سب طریقوں میں حاصل۔ (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 600، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-903

تاریخ اجراء: 03 ربيع الآخر 1447ھ/27 ستمبر 2025ء