عورت کو عادت سے زیادہ خون آنے کا حکم

ماہواری کی عادت سے بھی زیادہ خون آئے تو کیا حکم ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت جس کی ماہواری کے دن مقرر ہوں، لیکن کسی مہینے اس کو عادت سے زیادہ دن خون آجائے، جیسے کسی مہینے 9 دن تک خون آیا، تو اب اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اصول یہ ہے کہ جس عورت کی ماہواری کی عادت مقرر ہو، پھر خون عادت کے دنوں سے بڑھ جائے، تو اس صورت میں عورت کیلئے حکم یہ ہے کہ وہ انتظار کرے، اگر عادت سے زائد خون آکر دس دن کے بعد بھی جاری رہے، تو اب عادت کے دنوں کے بعد آنے والا سارا خون استحاضہ یعنی بیماری کا خون کہلائے گا اور اُن دنوں کی نمازیں معاف نہیں ہوں گی، اور اگر خون دس دن کے اندر اندر آنا بند جائے، تو یہ سمجھا جائے گا کہ اُس عورت کی ماہواری کی عادت تبدیل ہوگئی ہے اور عادت سے زائد جتنے دن تک خون آیا ہے،وہ سب دن اس کی ماہواری کے شمار ہوں گے، اس صورت میں اُن تمام دنوں کی نمازیں معاف ہوں گی، لیکن یہ اس وقت ہے کہ جب عورت کو حیض سے پہلے ایک کامل طہر یعنی کم از کم پندرہ دن پاکی کے گزرچکے ہوں اور اسی طرح حیض رکنے کے بعد بھی کم از کم پندرہ 15 دن تک خون نہ آئے۔

لہٰذا صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی عورت کی ماہواری کی عادت 9 دن سے کم تھی اور پھر اُسے کم از کم پندرہ دن پاکی کے بعد، اگلی بار9 دن تک خون آیا،اور پھر کم از کم پندرہ دنوں تک عورت پاک رہی، تو اس صورت میں نو(9) دنوں تک آنے والا خون اگرچہ عادت سے زائد ہے،مگر چونکہ دس دن کے اندر اندر آنا بند ہوگیا ہے، لہٰذا عورت کی عادت تبدیل ہوکر نو (9) دن مقرر ہوجائے گی، اور یہ 9 دنوں تک آنے والا سب خون حیض ہی شمار ہوگا، اور اُن دنوں کی نمازیں معاف ہوں گی۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

أما المعتادة فما زاد على عادتها و يجاوز العشرة في الحيض و الأربعين في النفاس يكون استحاضة۔۔۔ أما إذا لم يتجاوز الأكثر فيهما، فهو انتقال للعادة فيهما، فيكون حيضا و نفاسا

ترجمہ: بہرحال عادت والی عورت تو جو خون اس کی عادت سے بڑھ جائے، اور حیض میں دس دن اور نفاس میں چالیس دن سے تجاوز کرجائے، تو (عادت سے زائد تمام دنوں کا خون) استحاضہ ہوگا۔۔۔ بہرحال اگر حیض و نفاس میں خون اکثرمدت سے تجاوز نہ کرے تو ان دونوں میں عادت کی تبدیلی کا حکم ہوگا، لہذا عادت سے زائد آنے والا سارا خون حیض اور نفاس ہوگا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 1، باب الحیض، صفحہ 524،دار المعرفۃ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ’’ دس رات دن سے کچھ بھی زِیادہ خون آیا تو اگر پہلے اُسے حَیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی تو عادت سے جتنا زِیادہ ہو اِستحاضہ ہے۔ اسے یوں سمجھو کہ اس کو پانچ دن کی عادت تھی اب آیا دس دن تو کل حَیض ہے اور بارہ دن آیا تو پانچ دن حَیض کے باقی سات دن اِستحاضہ کے‘‘۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 372، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

حیض و نفاس کے مسائل کا مجموعہ بنام ’’خواتین کے مخصوص مسائل‘‘ میں ہے: ’’جتنے دن حیض آنے کی عادت تھی، اس بار اتنے دن سے کم آیا، یا زیادہ آیا۔۔۔ لیکن ہے دس دن سے کم تو یہ سارے کا سار احیض شمار ہوگا۔۔۔ لیکن یہ اسی وقت ہے کہ جب حیض سے پہلے اور حیض رُکنے کے بعد ایک کامل طہر یعنی کم از کم پندرہ (15) دن خون نہ آئے۔ (مثلاً اگر کسی عورت کی) عادت مہینے کے ابتدائی پانچ (5) دن حیض اور پچپن (55) دن پاک رہنے کی تھی۔ اگلی بار عادت کے مطابق مہینے کے شروع میں پانچ (5) دن خون آیا،پھر پچپن (55) دن پاک رہی اور پھر اگلے نو (9) دن خون آیا،تو ا س صورت میں آخری نو (9) دن حیض شمار ہوں گے،کیونکہ ان سارے دنوں کو حیض بنانا ممکن ہےاور اب عورت کی عادت پانچ (5) دن سے بدل کرنو( 9) دن قرار دی جائے گی‘‘۔ (خواتین کے مخصوص مسائل، صفحہ 77، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-504

تاریخ اجراء: 07 صفر المظفر 1446ھ / 13 اگست 2024ء