عورت کا مخصوص ایام میں سورہ اخلاص پڑھنا

عورت مخصوص دنوں میں سورہ اخلاص پڑھ سکتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں عاشورہ کے دن، سورہ اخلاص پڑھنے کی بہت فضیلت ہوتی ہے، تو کیا اسلامی بہن شرعی عذر کی حالت میں سورہ اخلاص پڑھ سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اسلامی بہنیں شرعی عذر کی حالت میں عاشورہ کے دن سورہ اخلاص ہرگز نہیں پڑھ سکتیں، کیونکہ حکم شرعی یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے مخصوص ایام میں کسی فضیلت اور مقصد کے حصول کیلئے بطور وظیفہ کے قرآ نی آیات پڑھنا بھی شرعاً جائز نہیں، اگرچہ وہ وظیفہ ان آیات کا ہو جو دعا و ثناء پر مشتمل ہو۔ ہاں اگر کبھی کوئی سورہ اخلاص کو محض ثنا کی نیت سے پڑھنا چاہے، تو چونکہ سورہ اخلاص رب تعالی کی حمد و ثنا پر مشتمل ہے، لہذا اسے شرعی عذر کی حالت میں ثنا کی نیت سے پڑھنے کی اجازت ہوگی، مگر اس کے شروع سے لفظ ’’قُل‘‘ کو ہٹا کر پڑھنا ہوگا، کیونکہ دعا و ثنا ء پر مشتمل وہ قرآنی آیات جو لفظ ’’قُل‘‘ سے شروع ہوتی ہیں، انہیں دعا و ثنا ء کے ارادے سے پڑھتے وقت لفظ ’’قُل‘‘ کے ساتھ نہیں پڑھا جا سکتا کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہوجائے گا۔

وہ آیات جو ذکر و ثنا پر مشتمل ہوں، انہیں بغرض عمل یا کسی مقصد کے حصول کیلئے حیض و نفاس کی حالت میں پڑھنا جائز نہیں، کہ یہ نیت، نیت دعا و ثنا نہیں، جیسا کہ سیدی اعلی حضرت نے اس کے متعلق تفصیلی کلام کرتے ہوئے،فتاوی رضویہ میں ارشاد فرمایا: ’’عمل میں تین نیتیں ہوتی ہیں: (1) یا تو دعا جیسے حزب البحر، حرزیمانی (2) یا اللہ عزوجل کے نام وکلام سے کسی مطلب خاص میں استعانت جیسے عمل سورہ یٰس و سورہ مزمل صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم (3) یا اعداد معینہ خواہ ایام مقدرہ تک اس غرض سے اس کی تکرار کہ عمل میں آجائے حاکم ہوجائے اُس کے موکلات تابع ہوجائیں اس تیسری نیت والے تو بحال جنابت کیا معنیٰ، بے وضو پڑھنا بھی روا نہیں رکھتے، اور اگر بالفرض کوئی جرأت کرے بھی تو اس نیت سے وہ آیت وسورت بھی جائز نہیں ہوسکتی، جس میں صرف معنی دعا وثنا ہی ہے کہ اولاً یہ نیت، نیتِ دعا و ثنا نہیں، ثانیاً اس میں خود آیت وسورت ہی کی تکرار مقصود ہوتی ہے کہ اس کے خدام مطیع ہوں، تو نیت قرآنیت اُس میں لازم ہے۔ رہیں پہلی دو نیتیں جب وہ آیات معنی دعا سے خالی ہیں، تو نیت اولٰی ناممکن اور نیت ثانیہ عین نیت قرآن ہے، اور بقصد قرآن اُسے ایک حرف روا نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ دوم، صفحہ 1115، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

فتاوی رضویہ ہی میں ارشاد فرمایا: ’’اقول یہاں ایک اور نکتہ ہے(وہ یہ ہے کہ ) بعض آیتیں یا سورتیں ایسی ہی دعا وثنا ہیں کہ بندہ ان کی انشا کرسکتا ہے بلکہ بندہ کو اسی لئے تعلیم فرمائی گئی ہیں مگر اُن کے آغاز میں لفظ قل ہے جیسے تینوں قل اور کریمہ

قل اللّٰھم مٰلک الملک۔

ان میں سے یہ لفظ (قل) چھوڑ کر پڑھے کہ اگر اس سے امر الٰہی مراد لیتا ہے تو وہ عین قرأت ہے اور اگر یہ تاویل کرے کہ خود اپنے نفس کی طرف خطاب کرکے کہتا ہے قل اس طرح کہہ، یوں ثنا ودعا کر۔ تو یہ امر بدعا وثنا ہوا نہ دعا وثنا اور شرع سے اجازت اس کی ثابت ہوئی ہے، نہ اُس کی۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ دوم، صفحہ 1113، 1114، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

بہارشریعت میں ہے: ”یوہیں تینوں قل بلا لفظ قل بہ نیتِ ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظِ قُل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیت ثنا ہی ہو کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے، نیت کو کچھ دخل نہیں۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 326، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-494

تاریخ اجراء: 23 محرم الحرام 1445ھ / 30 جولائی 2024ء