کیا مستحاضہ عورت قرآن چھو سکتی ہے؟

مُستحاضہ کا قرآن کو ٹچ کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کیا اسلامی بہن حالتِ استحاضہ میں وضو کر کے قرآن حکیم کو چھو سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ایسی عورت کہ جو مستحاضہ ہو، یعنی جس عورت کے متعلق شرعی معیار کے تحت ثابت ہو چکا ہو کہ اُسے آنے والا خون استحاضہ ہے، وہ وضو کر کے قرآن حکیم کو چھو سکتی ہے، کیونکہ استحاضہ کے احکامات حیض ونفاس والے نہیں، بلکہ فقہاءِ کرام نے اِسے ”حدث اصغر“ شمار کیا ہے، یعنی اس سے غسل نہیں، بلکہ وضو فرض ہوتا ہے، گویا جس عورت کو استحاضہ کا خون آئے، اُس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور بے وضو شخص کے جو احکام ہوتے ہیں وہی اس کے احکام ہوں گے سوائے اس کے وہ کہ اس کا معذور شرعی ہونا ثابت ہوجائے تو اس کے مطابق احکام جاری ہوں گے جو نیچے مذکور ہیں۔

نوٹ:ہر وہ عورت کہ جسے استحاضہ کا خون آئے، وہ ”معذورِ شرعی“ بھی ہو، یہ ضروری نہیں ہے، بلکہ عذرِ شرعی کا ثبوت اُس وقت ہو گا کہ جب عورت کو استحاضہ کا خون آنے کے سبب اِتنی مہلت بھی نہ ملے کہ وضو کر کے فرض نماز ادا کر سکے اور ”فرض نماز کا کامل وقت“ اِسی حالت میں گزر جائے، تو ایسی عورت کے حق میں ”عذرِ شرعی“ ثابت ہو جائے گا، اب وہ عورت ایک وضو سے جتنی نمازیں پڑھنا چاہے، پڑھ سکتی ہے، البتہ جب اُس نماز کا وقت ختم ہو گا، تو اگلے وقت کی نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہو گا۔

مستحاضہ کے احکام کے متعلق ابو عیسیٰ امام محمد بن عیسیٰ ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال: 279ھ/ 892ء) ایک حدیث روایت کرتے ہیں:

أنه قال في المستحاضة: تدع الصلاة أيام أقرائها» التي كانت تحيض فيها، ثم تغتسل و تتوضأ عند كل صلاة و تصوم و تصلي۔

ترجمہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے مستحاضہ عورت کے متعلق ارشاد فرمایا:جن ایام میں حیض آتا ہو، اُن دنوں میں نماز چھوڑ دے، پھر نہائے اور ہر نماز کے وقت میں وضو کرے، روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔ (سنن الترمذی، جلد 01، صفحہ 168، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی، بیروت)

استحاضہ کی شرعی حیثیت کے متعلق متن

ذُخْرُ المُتَاھِّلِین میں ہے:‌

الاستحاضة فحدث أصغر كالرعاف۔

ترجمہ: استحاضہ حدثِ اصغر ہے، جیسا کہ نکسیر پھوٹنا حدثِ اصغر ہے۔ (مَنْھَلُ الوَارِدِین و ذُخْرُ المُتَاھِّلِین، صفحہ 114، مطبوعۃ اسطنبول)

عذرِ شرعی کے تحقق کا معیار بیان کرتے ہوئےمَنْھَلُ الوَارِدِین اور متن ذُخْرُ المُتَاھِّلِینکا مشترکہ کلام یوں ہے:

أن الحدث ان (استوعب) و لو حكمًا (وقت صلاة) مفروضة (بان لم يوجد فيه زمان خال عنه يسع الوضوء و الصلاة يسمى عذرا و صاحبه) يسمى (معذورا و) يسمى أيضًا (صاحب العذر)۔

ترجمہ: اگر حدث ایک فرض نماز کے مکمل وقت کو گھیر لے، خواہ حکمی طور پر، یعنی وہ مریض اِتنی گنجائش بھی نہ پائے کہ جس میں وضو کر کے فرض نماز پڑھ سکے، تو اِس صورتِ حال کو ”عذرِ شرعی“ اور جس کو یہ صورت لاحق ہو، اُسے معذور یا صاحبِ عذر کہا جاتا ہے۔ (مَنْھَلُ الوَارِدِین و ذُخْرُ المُتَاھِّلِین، صفحہ 115، مطبوعۃ اسطنبول)

علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1069ھ / 1658ء) لکھتے ہیں:

تتوضأ المستحاضة و من به عذر: كسلس بول و استطلاق بطن لوقت كل فرض و يصلون به ما شاء و من الفرائض و النوافل۔

ترجمہ:مستحاضہ یا جسے عذر لاحق ہو، مثلاً: پیشاب کا بار بار آنا یا پیٹ خراب ہوجانا۔ وہ ہر فرض نماز کے لیے وضو کرے اور اُس وضو سے جو فرائض و نوافل پڑھنا چاہے، پڑھ سکتا ہے۔ (نور الایضاح مع مراقی الفلاح، صفحہ 97، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اس عبارت میں و النوافل کے تحت قرآنِ حکیم کو چھونے کے جواز کی تصریح کرتے ہوئے لکھا:

و الواجبات كالوتر و العيد و صلاة جنازة و طواف و مس مصحف۔

ترجمہ:اُس وضو سے واجبات مثلاً وتر، نمازِ عید کی ادائیگی، نیز نمازِ جنازہ پڑھنے، طوافِ کعبہ کرنے اور قرآنِ حکیم کو چھونے کی بھی اجازت ہے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ 97، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-904

تاریخ اجراء: 11 صفر المظفر 1446ھ / 17 اگست 2024ء