Shohar ki Ijazat ke Baghair Biwi Ka Nafil Roza Rakhna Kaisa?

شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی نفلی روزہ رکھ سکتی ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9019

تاریخ اجراء:24 محرم الحرام 1446ھ/31 جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  میں مدنی چینل دیکھتی ہوں اور اجتماع پر بھی جاتی ہوں،وہاں  بیان میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ نفل روزے رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس کی کارکردگی بھی  لی جاتی ہے اور بعض اوقات روزہ رکھنے والے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کے لیے امیرِ اہلِ سنّت دامت برکاتہم العالیہ کی پیاری پیاری دعائیں بھی سنائی جاتی ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ میرے شوہر مارکیٹنگ کا کام کرتے ہیں، عمو ماً اپنے شہر میں ہی مختلف اوقات میں لوگو ں سے ملاقاتیں کرتےہیں اور بعض اوقات کمپنی کے کام کے سلسلے میں  ایک، دو دن کے لیے شہر سے باہر بھی جاتے ہیں، تو کیا میں اپنےشوہر کی اجازت کےبغیر نفل روزہ رکھ سکتی ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفل روزے رکھنا، بلا شبہ کارِ ثواب اور کثیر دنیوی و اخروی فضائل و برکات کا ذریعہ ہے، البتہ فرائض و واجبات کی ادائیگی کے بعد  جب تک شرعی رکاوٹ نہ ہو،عورت کے لیے شوہر کی رضا و خوشنودی   کو مقدم رکھنا، شرعاً مطلوب ہے، اسی بنا پر احادیثِ طیبہ میں عورت کو شوہر کی اجازت کے  بغیر نفل روزے  سے منع کیا گیا ہے  کہ ہو سکتا ہے شوہر کو عورت کی حاجت ہو اورروزہ کی حالت میں وہ اس  پر قادر نہ ہو، چنانچہ حکمِ شرعی یہ ہے کہ اگر نفل روزہ رکھنے سے شوہر کی خدمت میں حرج واقع ہوتاہو، توعورت کےلیےشوہرکی اجازت کےبغیرنفل روزہ رکھنا،مکروہِ تحریمی ، ناجائزو گناہ ہے، اگر بلااجازت رکھےگی، توشوہرکوروزہ تڑوانے کا اختیارہے، اگرشوہرروزہ تڑواتاہے، توعورت پراُس روزے کی قضا واجب  ہوگی  اورقضا  کےلیےبھی شوہرکی اجازت ضروری ہے، ہاں اگرروزہ رکھنےسےشوہرکی خدمت میں کسی قسم کاخلل واقع نہ ہوتا ہو، مثلاً شوہر شہر سے  باہرہے یا خود روزہ  سے ہے، تو ایسی صورت میں نفل روزہ کے لیے شوہرکی اجازت ضروری نہیں، بلکہ شوہرمنع بھی کرے، تب بھی عورت  روزہ رکھ سکتی ہے۔

   عورت کا شوہرکی اجازت کےبغیرنفل روزہ  رکھناجائز نہیں، چنانچہ صحیح بخاری کی حدیثِ پاک میں ہے:لا يحل للمرأة أن تصوم و زوجها  شاهد الا باذنہترجمہ: عورت کے لیے شوہر کی موجودگی میں اُس کی اجازت کے بغیر(نفل) روزہ رکھنا حلال(جائز) نہیں۔(صحیح البخاری، باب صوم المراۃ باذن زوجھا، جلد2، صفحہ782، مطبوعہ کراچی)

   مذکورہ بالاحدیث پاک کے تحت علامہ بدرالدین عینی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:زوجهاشاهدأی: حاضر  يعني مقيم في البلد إذ لو كان مسافرا فلها الصوم لأنه لا يتأتي منه الاستمتاع بها وقال الكرماني: قال أصحابنا: النهي للتحريم ترجمہ:عورت کا شوہرموجودہویعنی (عورت کےساتھ اس)شہرمیں موجودہو،اس لیےکہ اگرشوہرسفرپرہو،توعورت کےلیےروزہ رکھناجائزہے،کیونکہ (اس صورت میں)شوہرعورت سے خواہش پوری نہیں کر سکتا اورامام  کرمانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ بیان کرتے ہیں کہ ہمارےاصحاب نے فرمایا:(حدیثِ مبارک میں)ممانعت تحریمی ہے۔(عمدۃالقاری،کتاب النکاح ، جلد20،صفحہ184،مطبوعہ بيروت)

   شوہر کی اجازت کے بغیر  روزہ رکھنامکروہِ تحریمی ہونے کے متعلق مراقی الفلاح میں ہے:کرہ للصائم سبعۃ اشیاء ترجمہ: روزے دار کے لیے سات چیزیں مکروہ ِ(تحریمی) ہیں۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے :ظاهر إطلاقه الكراهة يفيد أن المراد بها التحريمية ... وصوم المرأة تطوعا بغير إذن زوجهاترجمہ: ماتن عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ كا كراہت کو مطلق رکھنا اِس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ  مراد کراہتِ تحریمی ہے۔ اور عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھنا(مکروہِ تحریمی ہے)۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصوم، صفحہ679، مطبوعہ کوئٹہ)

   نفل روزے کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہونے یا  نہ ہونے کے متعلق تفصیلی کلام کرتے ہوئے  ملک العلماء علامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:وليس للمرأة التي لها زوج أن تصوم تطوعا إلا بإذن زوجها، لما روي عن النبی علیہ السلام ولأن له حق الاستمتاع بها ولا يمكنه ذلك في حال الصوم، وله أن يمنعها إن كان يضره، لما ذكرنا أنه لا يمكنه استيفاء حقه مع الصوم فكان له منعها  فإن كان صيامها لا يضره بأن كان صائما أو مريضا لا يقدر على الجماع فليس له أن يمنعها، لأن المنع كان لاستيفاء حقه فإذا لم يقدر على الاستمتاع فلا معنى للمنع… وللزوج أن يفطر المرأة إذا صامت بغير إذنه وتقضي المرأة إذا أذن لها زوجها أو بانت منه ترجمہ: شوہر والی عورت کےلیے شوہر کی اجازت کےبغیرنفل روزہ رکھنا جائز نہیں، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حدیث کی وجہ سے۔ اور اس لیےبھی کہ عورت سے نفع حاصل کرناشوہرکاحق ہےاور روزہ کی حالت میں شوہر انتفاع پر قادر نہیں ہوگا، اگر شوہرکو ضرر ہوتا ہو، تواسے منع کرنےکااختیارہے، اس وجہ سے جوہم نےذکرکیا کہ روزہ کی حالت میں شوہر اپناحق پانے پرقادرنہیں ہوگا، تواس کومنع کرنے کا اختیارہے۔ اور اگرعورت کاروزہ رکھنا شوہر کے لیےضررکاباعث نہ ہو، یوں کہ شوہرخود روزہ دارہویاایسامریض ہوکہ جماع پرقادرنہ ہو، تواسے منع کرنےکااختیارنہیں، اس لیےکہ منع کرنااپناحق پانے کےلیےتھا، جب انتفاع پرقادرہی نہیں، تومنع کرنےکی بھی کوئی وجہ نہیں۔ اورجب عورت شوہرکی اجازت کےبغیرروزہ رکھے، تو شوہرکو تڑوانےکااختیارہے اورعورت اس روزے کی قضا تب رکھے گی،  جب شوہراس کی اجازت دےیاجب عورت بائنہ ہوجائے۔(بدائع الصنائع،کتاب الصوم، جلد2،صفحہ 638،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:عورت بغیر شوہر کی اجازت کے نفل اور منّت و قسم کے روزے نہ رکھے اور رکھ لیے، تو شوہر تڑوا سکتا ہے، مگر توڑے گی، تو قضا واجب ہوگی، مگر اس کی قضا میں بھی شوہر کی اجازت درکار ہے یا شوہر اور اُس کے درمیان جدائی ہو جائے یعنی طلاق بائن دیدے یا مر جائے،  ہاں اگر روزہ رکھنے میں شوہر کا کچھ حرج نہ ہو مثلاً وہ سفر میں ہے یا بیمار ہے یا احرام میں ہے ، تو ان حالتوں میں بغیر اجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے، بلکہ اگر وہ منع کرے جب بھی۔(بھارِ شریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ1008، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم