
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3458
تاریخ اجراء: 05رجب المرجب 1446ھ/06جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہندہ کا شوہر اس سے ناراض ہے تو ہندہ کی عبادات درست اور قبول ہوں گی یا نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر ناراضی کی وجہ ہندہ ہے مثلا :شوہر کی اطاعت ان کاموں میں نہیں کی جن میں شوہر کی اطاعت اس پر لازم تھی جیسا کہ شوہر نے اسے اپنے پاس بلایا اور یہ بلا وجہ شرعی نہ گئی ، یا وہ شرعی پردے کا حکم دیتا ہے اور یہ نہیں کرتی وغیرہ تو ایسی صورت میں یقیناً ہندہ گناہ گار ہے اور بمطابق احادیث جب تک شوہر کو راضی نہ کر لےاس کی کوئی عبادت قبول نہیں (اگرچہ نماز وغیرہ عبادات جب ان کی تمام تر شرائط کے ساتھ درست طریقے سےادا کیں تووہ درست ادا ہو جائیں گی یعنی ان کی فرضیت یا وجوب ذمے سے اتر جائے گا )۔ ایسی صورت میں ہندہ پر لازم ہے کہ جلد از جلد شوہر کو راضی کرے اور آئندہ اس کی ہر جائز معاملے میں اطاعت کرے ۔
نوٹ: ان وعیدات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب عبادت کرنا ہی چھوڑ دے بلکہ عبادت جاری رکھے اور شوہرکوبھی راضی کرے۔
اور اگر ہندہ کا کوئی شرعی قصور نہیں بلکہ ناراضی و تعدی شوہر کی اپنی جانب سے ہے تو ایسی صورت میں ہندہ پر کوئی الزام نہیں ، اور اس صورت میں اس کے لیے عبادت قبول نہ ہونے کی وعید بھی نہیں،بلکہ شوہر پر لازم ہے کہ بلا وجہِ شرعی اپنی بیوی سے ناراضگی نہ رکھے ۔
صحیح ابن خزیمہ میں ہے :" عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة لا يقبل الله لهم صلاة ولا يصعد لهم حسنة:۔۔۔ والمرأة الساخط عليها زوجها حتى يرضى" ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں جن کی نماز اللہ تعالی قبول نہیں فرماتا اور ان کی کوئی نیکی اللہ پاک کی بارگاہ میں نہیں لے جائی جاتی(ان میں سے ایک) وہ عورت کہ جس کا شوہر اس سے ناراض ہو یہاں تک کہ راضی ہو جائے۔ (صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث 940،جلد1، صفحہ466، المكتب الإسلامي)
فیض القدیر میں اس حدیث پا ک کے جملے " والمرأة الساخط عليها زوجها "کے تحت ہے: " لموجب شرعي " یعنی:کسی موجبِ شرعی کی بنا پر شوہر بیوی سے ناراض ہو۔ (فیض القدیر،جلد3، صفحہ329،مطبوعہ مصر)
سبل السلام للصنعانی میں اسی حدیث پاک کی شرح میں ہے:" وإن كان هذا في سخطه مطلقا، ولو لعدم طاعتها في غير الجماع " یعنی:اگرچہ یہ ناراضگی مطلقا ہو ، اگرچہ جماع کے علاوہ کسی اور معاملے میں عدمِ اطاعت کی وجہ سے ناراضگی ہو۔ (سبل السلام، جلد2، صفحہ210، دار الحديث)
ایسی ہی وعید پر مشتمل ایک حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے "قال النووي: "وأما عدم قبول صلاته فمعناه أنه لا ثواب له فيها، وإن كانت مجزئة في سقوط الفرض عنه، ولا يحتاج معها إلى إعادة" ترجمہ: امام نووی نے کہا: اور بہر حال نماز کا قبول نہ ہونا تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس نماز کا ثواب نہیں ہو گا اگرچہ فرض ساقط ہونے کے معاملے میں وہ نماز کافی ہو گی اور اسے دوہرانے کی حاجت نہیں ہو گی ۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد7 ، صفحہ 2905، دار الفكر، بيروت)
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات سے ہے :" عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه، فأبت أن تجيء، لعنتها الملائكة حتى تصبح»"ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا: جب شوہر اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث 5193،جلد7، صفحہ30، دار طوق النجاة)
ایسی ہی احادیث کی شرح میں مرقاۃ المفاتیح میں ہے :"( فأبت) أي: امتنعت من غير عذر شرعي ۔۔۔ (لعنتها الملائكة) : لأنها كانت مأمورة إلى طاعة زوجها في غير معصية ۔۔۔أن سخط الزوج يوجب سخط الرب وهذا في قضاء الشهوة فكيف إذا كان في أمر الدين" ترجمہ: یعنی بیوی بغیر عذرِ شرعی کے انکار کر دے تو اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں کیونکہ عورت کوما سوائے معصیت اپنے شوہر کی اطاعت کا حکم ہے۔۔۔ بے شک شوہر کی ناراضگی اللہ تعالی کی ناراضگی کو لازم کرتی ہے اور یہ توشہوت پوری کرنے کے معاملے میں ہے تو دین کےمعاملات میں کیا حال ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد5، صفحہ2121، دار الفكر، بيروت )
بدائع الصنائع میں ہے:" ومنها، وجوب طاعة الزوج على الزوجة إذا دعاها إلى الفراش" ترجمہ: ان احکام میں سے یہ بھی ہے کہ شوہرکی اطاعت بیوی پر واجب ہے جب وہ اسے بستر پر بلائے۔ (بدائع الصنائع، جلد2، صفحہ 334، دار الكتب العلمية)
فتاوی رضویہ میں ہے"خصوصا جووضع لباس وطریقہ پوشش اب عورات میں رائج ہے کہ کپڑے باریک جن میں سے بدن چمکتا ہے یا سر کے بالوں یا گلے یا بازو یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی حصہ کھلا ہو یوں تو خاص محارم کے جن سے نکاح ہمیشہ کو حرام ہے کسی کے سامنے ہونا سخت حرام قطعی ہے اور اگر بفرض غلط گوئی عورت ایسی ہو بھی کہ ان امور کی پوری احتیاط رکھے کپڑے موٹے سر سے پاؤں تک پہنے رہے کہ منہ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں تلووں کے سواجسم کا کوئی بال کبھی نہ ظاہر ہو تو اس صورت میں جبکہ شوہر ان لوگوں کے سامنے آنے کو منع کرتا اور ناراض ہوتا ہے تو اب یوں سامنے آنا بھی حرام ہوگیا۔ عورت اگر نہ مانے گی اللہ قہار کے غضب میں گرفتار ہوگی جب تک شوہر ناراض رہے گا عورت کی کوئی نماز قبول نہ ہوگی اللہ کے فرشتے عورت پر لعنت کریں گے۔"(فتاوی رضویہ، جلد22، صفحہ217، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم