
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
صرف بصیر نام رکھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
یہ نام رکھنا جائز ہے، "بصیر" اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے لیکن یہ ایسا نام نہیں جو اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ خاص ہو، قرآن پاک میں یہ لفظ انسان کے لئے بھی ذکر ہوا ہے، لہٰذا انسان کا نام رکھنے کی صورت میں اسی کے مناسب معنی مراد ہوں گے، البتہ جہاں یہ اندیشہ ہو کہ عوام اس نام میں تصغیر کریں گے یا اس کو بگاڑیں گے تو وہاں یہ نام نہ رکھا جائے۔
ارشادِ ربانی ہے (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا) ترجمہ کنز العرفان: بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کا امتحان لیں توہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنا دیا۔ (القرآن، پارہ 29، سورۃ الدھر، آیت:2)
تفسیر طبری میں ہے
”كان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل «الله» و«الرحمن» و«الخالق»؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضا بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء“
ترجمہ: اللہ جل ذکرہ کے کچھ نام تو ایسے ہیں جن کے ساتھ نام رکھنا مخلوق پر حرام قرار دیا گیا کیونکہ ان ناموں سے اللہ کریم نے اپنی ذات کو خاص کردیا ہے جیسے اللہ، رحمٰن، خالق وغیرہ اور بعض ناموں میں اجازت دی کہ مخلوق ان ناموں کے ساتھ ایک دوسرے کا نام رکھیں جیسے رحیم،سمیع،بصیر، کریم اور انہیں کی مثل دیگر نام۔ (جامع البیان، جلد1، صفحہ132، مکۃ المکرمۃ)
جو نام اللہ عزوجل کے ساتھ خاص نہیں ہیں، ان کےمتعلق درمختار میں ہے
”و جاز التسمیۃ بعلی و رشید و غیرھما من الاسماء المشترکۃ و یراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالی، لکن التسمیۃ بغیر ذلک فی زماننا اولی لان العوام یصغرونھا عند النداء“
ترجمہ:اسما ء مشترکہ میں سے علی، رشید اور ان کے علاوہ نام رکھنا جائز ہے، اور (ان اسماء سے)جو معنی اللہ تعالیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے، لیکن ہمارے زمانے میں ایسے ناموں کے علاوہ نام رکھنا بہتر ہے کیونکہ عوام پکارتے وقت ان ناموں کی تصغیر کرتے ہیں۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الحضر وا لاباحۃ،جلد9، صفحہ689 , 688، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے ”بعض اسماء الٰہیہ جن کا اطلاق غیرﷲ پر جائز ہے، ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے، جیسے علی، رشید، کبیر، بدیع، کیونکہ بندوں کے ناموں میں وہ معنی مراد نہیں ہیں جن کا ارادہ ﷲ تعالیٰ پر اطلاق کرنے میں ہوتا ہے ۔۔۔ ہاں اس زمانہ میں چونکہ عوام میں ناموں کی تصغیر کرنے کا بکثرت رواج ہوگیا ہے، لہٰذا جہاں ایسا گمان ہو ایسے نام سے بچنا ہی مناسب ہے۔ خصوصاً جبکہ اسماء الٰہیہ کے ساتھ عبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیا، مثلاً عبدالرحیم، عبدالکریم، عبدالعزیز کہ یہاں مضاف الیہ سے مراد ﷲ تعالیٰ ہے اور ایسی صورت میں تصغیر اگر قصداً ہوتی تو معاذﷲ کفر ہوتی، کیونکہ یہ اس شخص کی تصغیر نہیں بلکہ معبود برحق کی تصغیر ہے مگر عوام اور ناواقفوں کا یہ مقصد یقینا نہیں ہے، اسی لیے وہ حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اُن کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں جہاں یہ احتمال ہو۔‘‘ (بہار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ602، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4326
تاریخ اجراء: 20ربیع الثانی1447 ھ/14اکتوبر2025 ء