
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا بچی کا نام رِکزہ رکھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
"رِكزه" راء کے زیر کے ساتھ کا معنی ہے: "حکمت اور عقل کی پختگی۔" یہ نام رکھنا جائز ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ بچیوں کے نام صحابیات و صالحات رضی اللہ تعالی عنہن کے ناموں پر رکھے جائیں، اس سے امید ہے کہ ان کی برکت بچی کے شامل حال رہے گی۔
مشہور عربی اردو لغت "المنجد" میں ہے ”الرِکْزَۃ: حزم۔ حکمت۔ ثباتِ عقل۔“ (المنجد، صفحہ309، مکتبہ قدوسیہ، لاہور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد3، حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4296
تاریخ اجراء: 12ربیع الثانی1447 ھ/06اکتوبر2025 ء