حمد نام رکھنا نیز اسکا مطلب

بچے کا نام حمد رکھنا 

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حمد نام رکھنا کیسا؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

حمد کا معنی ہے: تعریف، شکر، اچھے کام کی ستائش وغیرہ۔ اور یہ بطور صفت بھی استعمال ہوتا ہے، اس وقت یہ محمود کے معنی میں ہوتا ہے، یعنی: تعریف کیا ہوا۔ لہذا یہ نام رکھنا جائز ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ بچے کا اولاً نام آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام مبارک پر رکھا جائے یعنی محمد تاکہ اس کی برکتیں حاصل ہوں پھر بلانے کے لئے دوسرا نام بھی رکھا جاسکتا ہے۔

القاموس الوحید میں ہے ”الحمد: حسن فعل کی ستائش، تعریف، شکر۔ (2)  قابلِ تعریف بطورِ صفت بھی استعمال ہوتا ہے جیسے رجل حمد وامراۃ حمدۃ و منزل و منزلۃ حمد۔ حمد بمعنی محمود اور حمدۃ بمعنی محمودۃ ہے۔ (القاموس الوحید، صفحہ 373، مطبوعہ: کراچی)

المعجم الوسیط میں ہے

(الحمد) الثناء بالجميل و يوصف به فيقال رجل حمد و امرأة حمد و حمدة

ترجمہ: "حمد" کا مطلب اچھے وصف پر تعریف ہے، اور یہ لفظ بطورِ صفت بھی استعمال ہوتا ہے،پس کہا جاتا ہے: تعریف کیا ہوا مرد اور تعریف کی ہوئی عورت۔ (المعجم الوسیط، جلد 1، صفحہ 196، دار الدعوۃ)

محمد نام رکھنے کی فضیلت:

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة

ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن

 ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ کوئٹہ)

 فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4285

تاریخ اجراء: 07 ربیع الآخر 1447ھ / 01 اکتوبر 2025ء