عربان نام کا مطلب نیز یہ نام رکھنا کیسا؟

بچے کا نام عربان رکھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ہم نے اپنے بیٹے کا نام "عربان" رکھا تھا، اس کے معنی کیا ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

"عربان" عین کے فتحہ کے ساتھ،اس کامعنی ہے " فصیح یعنی صاف گفتگو کرنے والا" یہ نام رکھنا جائز ہے۔ البتہ! بچوں کے ناموں میں بہتر یہ ہوتا ہے کہ بیٹے کا نام محمد رکھا جائے کہ اس نام پاک کی حدیث پاک میں بہت برکتیں بیان ہوئیں پھر پکارنے کے لیے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام، صحابہ کرام علیہم الرضوان اور نیک لوگوں میں سے کسی کے نام پر نام رکھیں جبکہ وہ ان کے ساتھ خاص نہ ہو، اس سے امید ہے کہ ان کی برکت بچے کے شامل حال ہوں گی۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے

يقال: رجل عربان أي: فصيح اللسان

ترجمہ: کہا جاتا ہے: رجل عربان یعنی فصیح اللسان۔ (عمدۃ القاری، جلد 23، صفحہ 76، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

المنجد میں ہے ”رجل عَربان: فصیح مرد۔“ (المنجد، صفحہ 548، خزینہ علم و ادب، لاہور)

محمد نام رکھنے کی فضیلت:

 کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة

ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن

 ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ کوئٹہ)

 فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے

تسموا بخياركم

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

 فتاوی رضویہ میں ہے ”حدیث سے ثابت کہ محبوبانِ خدا، انبیاء و اولیاء علیہم الصلٰوۃ و الثناء کے اسمائے طیبہ پرنام رکھنا مستحب ہے جبکہ ان کے مخصوصات سے نہ ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 685، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

نوٹ: ناموں کے بارے میں تفصیلی معلومات اور بچوں اور بچیوں کے اسلامی نام حاصل کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی جاری کردہ کتاب ”نام رکھنے کے احکام“ کا مطالعہ کر لیجیے۔ نیچے دئیے گئے لنک سے آپ اس کتاب کو ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4319

تاریخ اجراء: 19 ربیع الآخر 1447ھ / 13 اکتوبر 2025ء