
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے بھی سوالاتِ قبر ہوتے رہے ہیں اور کیا ہمارے نبی خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم سے بھی سوالاتِ قبر ہوئے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
راجح قول کے مطابق ہمارے نبی خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سمیت دوسرےکسی بھی نبی علیہ السّلام سے سوالاتِ قبر نہیں ہوئے۔
جیساکہ مسامرہ میں ہے:
و الاصح ان الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام لایسالون فی قبورھم ولا اطفال المومنین اما الانبیاء فلانّہ قد ورد ان بعض صالحی الامّۃ یامن فتنۃ القبر بسبب عمل صالح۔۔۔ و اذا ثبت ھذا ذلک لبعض الامّۃفالانبیاء علیھم الصلاۃ و السلام مع علوّ مقامھم المقطوع لھم بسببہ بالسعادۃ العظمٰی ومع عصمتھم اولٰی بذلک
یعنی زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ انبیاء اور مسلمانوں کے بچوں سے ان کی قبروں میں سوال نہیں کیا جائے گا انبیاء علیہمُ السّلام سے تو اس لیےکہ جب امّت کے کچھ نیک افراد کاکسی نیک عمل کے باعث سوالاتِ قبر سے محفوظ رہنا ثابت ہے تو انبیاء علیہمُ السّلام کا سوالاتِ قبر سے محفوظ رہنا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگا حالانکہ ان کا بلند مرتبہ ہونا قطعی اور ان کا معصوم ہونا ثابت ہے۔(المسامرۃ شرح المسایرۃ، ص232، 233)
علامہ ملا علی قاری علیہ الرَّحمہ(متوفی 1014ھ) ارشاد فرماتے ہیں:
واستثنی من عموم سؤال القبر الانبیاء علیھم السلام والاطفال و الشھداء ففی صحیح مسلم انہ علیہ الصلوۃ و السلام سئل عن ذلک؟ فقال: کفی ببارقۃ السیوف شاھداً ففی الکفایۃ انہ لا سؤال للانبیاء علیھم السلام
یعنی سوالاتِ قبر کے عموم میں سے انبیاء علیہمُ السّلام، بچے اور شہداء مستثنی ہیں چنانچہ صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےاس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سوالاتِ قبر نہ ہونے کے لیےتلواروں کےسائے تلے شہید ہونا ہی کافی ہےچنانچہ کفایہ میں ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے سوالاتِ قبر نہ ہوں گے۔(شرح الفقہ الاکبر، ص181، 182)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2025ء