سفرِ معراج کتنے وقت میں مکمل ہوا؟

نبی کریم ﷺ نے معراج کا سفر کتنی دیر میں کیا تھا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و سلم نے سفر معراج کتنے عرصہ میں کیا؟ ایک شخص کا کہنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و سلم نے سفر معراج 18 ہزار سال میں مکمل کیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و سلم سفر معراج کے لیے تشریف لے گئے تو اس کائنات کا نظام روک دیا گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و سلم واپس تشریف لائے تو اس کائنات کا نظام چلنا شروع ہوا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شب معراج مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور وہاں سے ساتوں آسمانوں، جنت و دوزخ وغیرہ کی مع جسم و روح رات کے ایک چھوٹے سے حصے میں سیر فرمائی۔ بلا شبہہ اس کروڑوں برس کی مسافت کو چند ساعتوں میں طے کر لینا تعجب خیز اور مافوق العادت (Supernatural) بات ہے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عظیم الشان معجزہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خصاص میں سے ایک نمایاں خاصہ و فضیلت ہے۔ اس سیر کے دورانیے کا رات کے مختصر وقت میں ہونا تو طے ہے، لیکن وہ کتنا مختصر تھا یہ معین نہیں، البتہ اس کے متعلق مختلف اقوال موجود ہیں، جیسے کہ چار گھنٹے، تین گھنٹے یا اس سے بھی کم، اور ایک قول کے مطابق یہ سارا سفر ایک آن کی آن میں ہو گیا، حتی کہ جب نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو بستر مبارک اب تک گرم تھا، وضو کا پانی بہہ رہا تھا اور روانہ ہوتے وقت جس ٹہنی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمامہ شریف لگا وہ اب تک ہل رہی تھی۔ جہاں تک اٹھارہ ہزار سال میں یہ سفر مکمل کرنے اور نظام کائنات روک دئیے جانے کی بات ہے تو علمائے کرام نے واقعۂ معراج کے متعلق اپنی کتابوں میں اس کا ذکر بھی فرمایا ہے لیکن یہ سب محض اقوال و توجیہات ہیں، ان میں کوئی چیز ہمارا عقیدہ نہیں ہے۔ عقیدہ وہی ہے کہ رات کے مختصر سے حصے میں یہ تمام سفر مکمل ہوا اور حقیقت میں اس کی کیفیت و صورت کیا بنی وہ ہماری عقل سے وراء ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ- اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(1)﴾

ترجمہ کنز العرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (پارہ 15، سورة الاسراء 17، آیت)

علامہ فخر الدین ابو عبد اللہ محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

أراد بقوله: ليلا بلفظ التنكير ‌تقليل ‌مدة الإسراء

ترجمہ: "لَیْلًا" کو لفظِ نکرہ کے ساتھ فرمانے سے مراد واقعۂ اسراء کی مدت کا قلیل ہونا ہے۔ (مفاتيح الغيب تفسير الرازي، جلد 20، صفحہ 292، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

علامہ سلیمان بن عمر جمل شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: 

فالتنوین للتقلیل أي: في جزء قلیل من اللیل، قیل: قدر أربع ساعات، و قیل: ثلاث، و قیل: أقل من ذلک

ترجمہ: پس ("لیلًا" کی) تنوین تقلیل کے لیے ہے، یعنی اس رات کے تھوڑے سے حصے میں (یہ واقعہ پیش آگیا)۔ بعض نے کہا چار گھنٹے کی مقدار، بعض نے کہا تین گھنٹے کی، اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے بھی کم وقت کی مقدار تھی۔ (الفتوحات الإلهية بتوضيح تفسير الجلالين، جلد 4، صفحہ 286، دار الكتب العلمية، بيروت)

علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

فقیل: قدر أربع ساعات، و قیل: ثلاث، و قیل: قدر لحظۃ، قال السبکي في تائیتہ: و عدت و کل الأمر في قدر لحظۃ

ترجمہ: پس کہا گیا ہے کہ چار گھنٹے کی مقدار، بعض نے کہا تین گھنٹے، اور بعض نے کہا کہ محض ایک لمحے کے برابر وقت لگا۔ امام تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی نعتیہ نظم میں فرمایا: آپ واپس لَوٹے، درحالیکہ سارا معاملہ صرف ایک لمحے میں ہو گیا۔ (حاشية الصاوي علی تفسیر الجلالین، جلد 4، صفحہ 7، دار تحقیق الکتاب، لبنان)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”سبحٰن! کیسی عجیب بات ہے، جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے جانا، کرۂ زمہر یر طے فرمانا، کُرۂ نار طے فرمانا، کروڑوں برس کی راہ کو چند ساعت میں طے فرمانا، تمام ملک و ملکوت کی سیر فرمانا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 633، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

شیخ شہاب الدین سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

و كان الإسراء و العروج في بعض ليلة واحدة و كان رجوعه صلى الله عليه و سلم على ما كان ذهابه عليه و لم يعين مقدار ذلك البعض، و كيفما كان فوقوع ما وقع فيه من أعجب الآيات وأغرب الكائنات، و في بعض الآثار أنه صلى الله عليه و سلم لما رجع وجد فراشه لم يبرد من أثر النوم، و قيل: إن غصن شجرة أصابه بعمامته في ذهابه فلما رجع وجده بعد يتحرك

ترجمہ: اسراء اور معراج ایک ہی رات کے کچھ حصے میں ہوئی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی آن پر واپس تشریف لے آئے جس پر گئے تھے۔ البتہ رات کے اس کچھ حصے کی مدت متعین نہیں، مگر جیسی بھی ہو، اس میں جو مشاہدات واقع ہوئے وہ بہت حیرت انگیز نشانیوں اور عجیب و غریب واقعات میں سے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس تشریف لائے تو بستر نیند کے اثر سے ٹھنڈا ہونے نہ پایا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ درخت کی وہ شاخ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روانہ ہونے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمامہ شریف سے لگی تھی، جب واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اب بھی اسے ہلتا پایا۔ (روح المعاني، جلد 8، صفحہ 13، دار الكتب العلمية، بيروت)

غزالئ زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”شب معراج جب اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا تو اس کارخانۂ عالم کو ایک دم بند کر دیا سوائے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور ان چیزوں کے جنہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے متحرک پایا۔ تمام کائنات کو اسی طرح ٹھہرا دیا جس طرح کارخانہ بند ہونے سے اس کی ہر چیز ٹھہر جاتی ہے۔ چاند اپنی جگہ ٹھہر گیا، سورج اپنی جگہ رک گیا۔ زمانے اور زمانیات کی حرکت بند ہوگئی (سوائے ان کے جن کا استثناء ہم عرض کر چکے ہیں) حرارت و برودت اسی درجہ پر ٹھہر گئی جس پر وہ بند ہوتے وقت پہنچی تھی۔ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے بستر مبارک کی حرارت بھی ٹھہر گئی تھی، جہاں وضو فرمایا تھا وہاں وضو شریف کا پانی بہنا بند ہو گیا، حجرہ شریف کی زنجیر مبارک ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچی تھی وہیں رک گئی، جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام واپس تشریف لائے تو کار خانۂ قدرت بحکم مالک حقیقی فوراً چالو ہو گیا اور ہر چیز از سر نو اپنے مراحل کو طے کرنے لگی۔ چاند سورج اپنے اپنے منازل پر چلنے لگے، حرارت و برودت اپنے درجات طے کرنے لگی، جو چیزیں حرکت سے سکون میں آ گئی تھیں مائل بہ حرکت ہونے لگیں، وضو شریف کا پانی بہنے لگا، بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی، حجرہ شریف کی زنجیر مبارک ہلنے لگی۔ کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ کسی کو احساس ہوا کیونکہ تغیر اور احساس دونوں حرکت کے بغیر ناممکن ہیں اور حرکت کا وجود ہی نہ تھا تو احساس و تغیر کیسے ہوتا؟۔“ (مقالات کاظمی، جلد 1، صفحہ 182- 183، مکتبہ ضیائیہ، راولپنڈی)

فیض ملت علامہ فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”محققین نے سیرِ معراج کی توجیہ سرعت سیر سے کی ہے، یہاں تک کہ مکان اور زمان ہر دو اپنے استعداد پر باقی تھے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ وہ مسافت جس کو حضور علیہ السلام نے معراج کی رات طے فرمایا، نہایت دراز تھی حتی کہ حقائق الحقائق میں ہے کہ مکہ شریف سے مقامِ (خاص) تک تین لاکھ سال کی مسافت تھی اور بعض نے پچاس ہزار وغیرہ ذالک کا قول کیا ہے۔ اور بعض نے زمان اور مکان بحالہ مان کر مسافت کی طی (سمٹ جانے) کا قول کیا ہے، جیسا کہ روح المعانی میں ہے۔... مالک الملک کے عرشی مہمان صلی اللہ علیہ و سلم جب معراج سے واپس آئے تو وہی آن باقی تھی حتی کہ بستر مبارک ہنوز گرم تھا، وضو کا پانی بہہ رہا تھا اور حجرہ کی زنجیر ہل رہی تھی۔ اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکتا کہ فی الحقیقت آپ کو معراج میں کتنا عرصہ لگا، ہاں ایک مشہور قول ہے کہ ۱۸ ہزار سال کے عرصہ تک نظام عالم سکون میں رہ گیا۔ گو جدید اور قدیم فلسفہ میں منہمک اور نئی روشنی کے خیال کے لوگ اس کو بعید از عقل کہہ دیں، مگر معجزات کو عقل کی کسوٹی پر پر کھنا بیکار ہے؛ کیونکہ معجزہ وہ ہے جس کے مقابلہ میں انسان عاجز ہو جائے اور عقل حیران رہ جائے، خاص کر معراج کے واقعات اول سے آخر تک انوکھے اور نرالے ہیں، جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے عجائبات حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو دکھائے۔“ (معراج مصطفی، صفحہ 27 - 28، مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاولپور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-770

تاریخ اجراء: 23 ذوالقعدۃالحرام 1446ھ / 21 مئی 2025ء