
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا ہم بھی برکت کی نیت سے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے گھر میں لٹکا سکتے ہیں؟ بعض دوست منع کرتے ہیں کہ یہ پچھلی امتوں کے لوگ تھے ہم مسلمانوں کو ان کے نام نہیں لٹکا نے چاہیئں، بلکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے جو ولی ہیں ان کے نام لکھ کر لگانے چاہیئں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اصحابِ کہف یہ اللہ رب العزت کے مقبول اور برگزیدہ بندے تھے، انہیں قرآن کریم میں اللہ پاک کی عجیب نشانی کہا گیا، اور قرآن کریم میں ان کے ایمان کی پختگی اور سچائی کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا گیا، اور مفسرین کرام نے اصحاب کہف کو صاحب کرامت اولیاء میں شمار کیا ہے یہاں تک کہ کثیر علمائے کرام اور ائمہ دین نے ان کے ناموں کے فوائد اور برکات بیان کی ہیں، لہذا ان اولیائے کرام کے ناموں کو گھروں میں لٹکانا بالکل جائز اور شرعا پسندیدہ ہے، باقی بعض افراد کا یہ کہنا کہ اصحاب کہف پچھلی امتوں کے ولی تھے تو ہم مسلمانوں کو ان کے نام نہیں لٹکانے چاہئیں، یہ بے بنیاد بات ہے، شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ ہر امت کے ولی ہمارے لئے لائق تعظیم اور باعث برکت ہیں ۔
چنانچہ رب تبارک وتعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْـكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا(۹) اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْـكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(۱۰)
ترجمہ کنزالعرفان: کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑی غار اور جنگل کے کنارے والے وہ ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی تھے۔ جب ان نوجوانوں نے ایک غار میں پناہ لی، پھرکہنے لگے: اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے معاملے میں ہدایت کے اسباب مہیا فرما۔ (القرآن الکریم، پارہ 15، سوہ کہف، آیت 10)
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”اصحابِ کہف کے نام بڑے بابرکت ہیں اور اَکابر بزرگانِ دین نے ان کے فوائد وخواص بیان کئے ہیں: چنانچہ فرماتے ہیں کہ اگریہ اَسماء لکھ کر دروازے پر لگادیئے جائیں تو مکان جلنے سے محفوظ رہتا ہے، سرمایہ پر رکھ دیئے جائیں تو چوری نہیں ہوتا، کشتی یا جہاز اُن کی برکت سے غرق نہیں ہوتا، بھاگا ہوا شخص ان کی برکت سے واپس آجاتا ہے، کہیں آگ لگی ہو اور یہ اسماء کپڑے میں لپیٹ کر ڈال دیئے جائیں تو وہ بجھ جاتی ہے، بچے کے رونے، باری کے بخار، دردِ سر، اُمُّ الصّبیان (خاص قسم کے دماغی جھٹکے اور دورے،) خشکی و تری کے سفر میں، جان و مال کی حفاظت، عقل کی تیزی اور قیدیوں کی آزادی کے لئے یہ اسماء لکھ کرتعویذ کی طرح بازو میں باندھے جائیں۔“ (صراط الجنان، جلد 05، صفحہ 541، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-2487
تاریخ اجراء: 03 شعبان المعظم 1445ھ / 14 فروری 2024ء