حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غسل کس نے دیا؟

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو غسل کس نے دیا؟

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3584

تاریخ اجراء:20 شعبان المعظم 1446 ھ/ 19 فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو غسل شریف کس نے دیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو غسل آپ کی بیوی نے دیا۔ کیا یہ بات درست ہے، قران و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں ! یہ بات درست ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کوآپ کی زوجہ نے ہی غسل دیاتھا، جن کانام حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاہے۔ اوراس کاسبب یہ تھاکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے وصیت فرمائی تھی کہ انہیں ان  کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاغسل دیں، چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق آپ  کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہانے آپ کوغسل دیااورشرعی اعتبار سے  بیوی کا اپنے شوہر  کو غسل دینا جائز ہےکیونکہ شوہرکے فوت ہونےکے بعدبیوی عدت میں ہوتی ہے اورجب تک عدت میں ہوتونکاح باقی رہتاہے، اسی وجہ سے اگربیوی فوت ہوجائے توشوہراسے غسل نہیں دے سکتاکہ شوہر پر عدت نہیں ہوتی لہذابیوی کے فوت ہوتے ہی نکاح بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے۔

   چنانچہ البدایہ والنہایہ میں ہے ”محمد بن أبي بكر الصديق۔۔۔۔ أمه أسماء بنت عميس، و لما احتضر الصديق أوصى أن تغسله فغسلته“ ترجمہ: حضرت محمدبن ابوبکرصدیق کی والدہ اسماء بنت عمیس ہیں اورجب حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا وقت وصال آیاتوانہوں نے وصیت فرمائی کہ ان کوحضرت اسماء غسل دیں چنانچہ حضرت اسماء نے آپ کوغسل دیا۔رضی اللہ تعالی عنہم۔(البدایۃ و النھایۃ، جلد 7، صفحہ 353، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

   یونہی مراٰۃ المناجیح میں ہے ”آپ کا نام عبداللہ ہے، کنیت ابو بکر، لقب عتیق، آپ کی زوجہ کا نام اسماء بنت عمیس ہے، آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے یہ ہی غسل دیں ایسا ہی کیا گیا۔“(مراٰۃ المناجیح، جلد 8 ،صفحہ 298، مطبوعہ قادری پبلشرز، لاہور)

   رد المحتار علی الدر المختار  میں ہے ”المرأۃ تغسل زوجھا۔۔۔ و النکاح بعد الموت باق الی أن تنقضی العدۃ بخلاف ما اذا ماتت  فلا یغسلھا لانتھاء ملک النکاح لعدم المحل فصار اجنبیا و ھذا اذا لم تثبت البینونۃ بینھما فی حال حیاۃ الزوج فان ثبتت بان طلقھا بائنا أو ثلاثا ثم مات لاتغسلہ لارتفاع الملک با لابانۃ“ ترجمہ: عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔۔۔ اور نکاح موت کے بعد عدت پوری ہونے تک باقی رہتا ہے، بخلاف اس صورت کے کہ جب عورت فوت ہوجائے، تو  مرد اسے غسل نہیں دے سکتا، کیونکہ محل فوت ہوجانے کے سبب ملکِ نکاح انتہاء کو پہنچ چکی ہے، تو یہ (شوہر)اجنبی ہوگیااور یہ(عورت کے مرد کو غسل دینے والا حکم) اس صورت میں ہے جب ان دونوں کے درمیان شوہر کی زندگی میں  جدائی نہ ہوئی ہو، اگر جدائی ثابت ہوچکی ہو بایں صورت  کہ اسے طلاقِ بائن یاتین طلاقیں دے کر فوت ہوا، تو عورت غسل نہیں دے سکتی، کیونکہ بائن کرنے کے سبب ملکیت ختم ہو چکی ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج 2، ص 199، دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم