نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ
و آلہ وسلمکی نماز جنازہ کے بارے میں
علمائے کرام کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک یہ ہے کہ نماز جنازہ
معروف طریقےپر نہ ہوئی ،جیساکہ ہمارے ہاں پڑھی جاتی
ہے،بلکہلوگ گروہ در گروہ آتے جاتے اور
درودو سلاماور دعائیں پڑھتے
جاتے،جبکہ اکثر علمائے کرام نے اسیمعروف نماز ہی کا قول کیا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں پڑھی
جاتی ہے ،اور جب تکمسلمانوں کے
پہلے خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی
عنہکے دستِ حق پرست پر بیعت نہ ہوئی
تھی،لوگ فوج در فوج آتے اور جنازہ اقدس پر نماز پڑھتے جاتے،جب بیعت ہوگئی،ولی
شرعیسیدنا ابو بکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہمقرر
ہوئے،انہوں نے جنازہ اقدسپر نماز پڑھی
،پھر کسی نے نہ پڑھی کہ ولی شرعینماز جنازہ پڑھ لے تواس کے بعد کسی کے لئے نماز جنازہ پڑھنا
جائز نہیں۔
المعجم الاوسط للطبرانیمیں ہے:” إذا غسلتمونی وكفنتمونی،
فضعونی على سريری في بيتی هذا على شفير قبری، ثم اخرجوا
عني ساعة، فإن أول من يصلي علی جليسي وخليلي، جبريل ثم ميكائيل، ثم إسرافيل،
ثم ملك الموت مع جنوده، ثم ادخلوا علي فوجا فوجا، فصلوا علي وسلموا تسليما“ترجمہ:(نبی پاک صلی اللہ تعالی
علیہ و آلہ وسلمنے ارشاد فرمایا):
جب تم مجھے غسل و کفن دے چکو،تو مجھے میرے اسی گھر میںقبر (مبارک) کے پاسمیری چارپائی پر رکھ کرکچھ دیرکے لئے باہر چلے
جانا،سب سے پہلے میرے جلیس و خلیلجبرئیل(علیہ السلام)مجھ پر صلوۃ
پڑھیں گے،پھر میکائیل (علیہ السلام)،پھر اسرافیل
(علیہ السلام) ،پھر ملک الموت (علیہ اسلام) اپنی جماعت کے
ساتھ۔پھر گروہ در گروہ میرے پاس حاضر ہوکرمجھ پر درود و سلام عرض کرتے جانا۔(المعجم الاوسطللطبرانی،جلد 04،صفحہ 209،دار
الحرمین ،قاھرہ)
طبقات الکبری میں ہے:”لما كفن رسول اللهصلی اللہ تعالی علیہ و آلہ
وسلمووضع على سريره، دخل أبو بكر وعمر
رضي الله عنهما ومعهما نفر من المهاجرين والأنصار بقدر ما يسع البيت فقالا: السلام
عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، وسلم المهاجرون والأنصار كما سلم أبو بكر
وعمر رضی اللہ عنھما، ثم صفوا صفوفا لا يؤمهم أحد، فقال أبو بكر وعمررضی اللہ عنھما وهما في الصف الأول حيال
رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : اللهم إنا نشهد أنه قد
بلغ ما أنزل إليه، ونصح لأمته، وجاهد في سبيل الله حتى أعز الله دينه، وتمت كلمته،
وأومن به وحده لا شريك له، فاجعلنا إلهنا ممن يتبع القول الذي أنزل معه، واجمع
بيننا وبينه حتى تعرفه بنا وتعرفنا به، فإنه كان بالمؤمنين رؤفا رحيما، لا نبتغي
بالإيمان به بديلا، ولا نشتري به ثمنا أبدا،فيقول الناس: آمين آمين، ويخرجون ويدخل
آخرون، حتى صلى الرجال، ثم النساء، ثم الصبيان“ترجمہ:جب نبی پاک صلی اللہ تعالی
علیہ و آلہ وسلمکو کفن (مبارک) دے
کرسریر مبارک پر آرام دیا گیا،حضرت
ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی
اللہ تعالیعنہمانے حاضر ہوکر عرض کی:یا رسول اللہ
! (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) آپ پر سلام،آپ پر اللہ تعالی
کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔اور ان دونوں حضراترضی اللہ تعالی عنہماکے ساتھ ایک گروہ مہاجرین و انصار
کا (بھی) تھا،،جس قدراس حجرہ پاک میں
گنجائش ہو سکتی تھی،ان سب نے بھی ایسے ہی سلام عرض
کیا جیسا کہ سیدنا ابو بکر وفاروق اعظم رضی اللہتعالی
عنہمانے کیا۔وہ سب صف باندھے
کھڑے تھے،کوئیان کی امامت نہیں
کررہا تھا،سیدنا ابو بکر و عمر فاروقرضی اللہ تعالی عنہماپہلیصف میں نبیپاک صلی اللہ تعالی علیہ
وسلمکے سامنے کھڑے تھےاور یوں دعاکرتے:اے اللہ! ہم گواہی دیتے ہیںکہ جو کچھ تو نے اپنے نبیپر اتارا،حضور (صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم ) نےاپنی امت تک پہنچا دیا،اور
ان کی خیر خواہی میں رہے،اور خدا کی راہ میں
جہاد فرمایا،یہاں تک کہاللہ
تعالی نے اپنے دین کو غلبہ دیا، اور کلمات الہیہ کی
تکمیلہوئی،پس اللہ وحدہ لا
شریک لہپر ایمان لایا
گیا،پس اے ہمارے معبود! ہمیں اس کتاب کی پیروی کرنے
والابنا جو کتابان کے ساتھ اتری،اور ہمیں ان کے
ساتھ جمع کرنا کہ وہ ہمیں اور ہم انہیںپہچان لیں کہ وہ مسلمانوں پر رؤف و رحیم
تھے،ہم ایمان کو کسی چیز سےبدلنا نہیں چاہتے،اور نہ ہی اس کے عوضکچھ قیمت لینا چاہتے ہیں۔لوگ
اس دعا پر "آمین آمین" کہتے جاتے،پھر باہر جاتے،اور دوسرے
آتے،یہاں تک کہ مردوں ،پھر عورتوں ،پھر بچوں نے حضور صلی اللہ تعالی
علیہ و آلہ وسلمپر صلوۃ یعنیدعائیں پڑھیں۔(الطبقات الکبری،جلد 02،صفحہ 221،دار
الکتب العلمیۃ، بیروت)
شرح الزرقانی علی مؤطا امام مالک میں
ہے:”وظاهر هذا
أن المراد بالصلاة عليه ما ذهب إليه جماعة أن من خصائصه أنه لم يصل عليه أصلا،
وإنما كان الناس يدخلون فيدعون ويصدقون۔۔۔وقد قال عياض: الصحيح
الذي عليه الجمهور أن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم كانت صلاة حقيقية لا
مجرد الدعاء فقط“ترجمہ:اس سے ظاہر یہیہوتا ہے کہنبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم پر
"صلوۃ"سے مراد وہی
ہے جوایک جماعت کا مذہب ہے کہحضور صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم کے خصائص سے ہے کہان کی
نمازجنازہ بالکل نہیں پڑھی
گئی،پس ہوا یوں کہ لوگ داخل ہوتے جاتے اور دعائیں کرتے ہوئے
رخصت ہوجاتے،جبکہ قاضی عیاضرحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: صحیح وہی
ہے جس پر جمہور ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ
و آلہ وسلمپر جو "صلوۃ"
پڑھی گئی وہ حقیقۃً نماز(یہی معروف نماز) ہی تھی،فقط دعا نہ تھی۔(شرح الزرقانیعلی مؤطاامام مالک،جلد 02،صفحہ 94،95،مطبوعہ قاھرہ)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری
رحمۃ اللہ تعالی علیہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ
تعالی علیہکی تصحیح
کے بارے میں فرماتے ہیں:”ثم حسبنافی قبول التصحیح ان نقول نعمصلی علیہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم صلٰوۃ الجنازۃ مرۃ
وذلک حین تمت البیعتہ علٰی یدالصدیق
رضی ﷲتعالٰی عنہ صحت ولایتہ اماقبل ذلک فما کان
الناس لایدعون وینصرفون ثم اذاصلی الصدّیق لم یصل
علیہ احد بعد“ترجمہ: پھر ہمارے لئے قبول تصحیح کے معاملے میں
یہ کہنا کافی ہے کہ ہاں ایک بار حضور اقدس صلی اﷲتعالٰی
علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی گئی وُہ اس وقت جب حضرت صدیق
اکبر رضی اﷲتعالٰی عنہ کے ہاتھ پر بیعت تمام ہوئی
اور ان کی ولایت صحیح ہوگئی۔ اس سے قبل صرف یہ
تھا کہ لوگ آکر دعا کرتے اورلوٹ جاتے ۔ پھر جب حضرت صدیق نے نماز ادا
کی تو اس کے بعد کسی نے حضور کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔(فتاوی رضویہ،جلد 09،صفحہ 290،رضا
فاؤنڈیشن، لاھور)
امام اہلسنت ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”جنازہ
اقدس پر نماز کے باب مختلف ہیں۔ایک کے نزدیک یہ
نماز معروف نہ ہوئی بلکہ لوگ گروہ در گروہ حاضر آتے اور صلٰوۃ
وسلام عرض کرتے بعض احادیث بھی اس کی مؤید ہیں۔
۔۔اور بہت علماء یہی نماز معروف مانتے ہیں،امام قاضی
عیاض نے اسی کی تصحیح فرمائی۔
۔۔سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی
عنہ تسکینِ فتن وانتظام امّت میں مشغول ، جب تک ان کے دستِ حق پرست پر
بیعت نہ ہوئی تھی، لوگ فوج فوج آتے اور جنازہ انور پر نماز
پڑھتے جاتے، جب بیعت ہولی، ولی شرعی صدیق ہوئے،
انہوں نے جنازہ مقدس پر نماز پڑھی ،پھر کسی نے نہ پڑھی کہ بعد
صلٰوۃ ولی پھر اعادۂ نمازِ جنازہ کااختیار نہیں۔(فتاوی رضویہ ،جلد 09،صفحہ 314،رضا
فاؤنڈیشن، لاہور)