
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اولیاء اللہ کی شان اور اولیاء اللہ کی گستاخی پر اس کی سزا بیان کریں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولیاء اللہ(یعنی اللہ تعالی کے دوست اورمقرب بندے ) اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند مقام رکھتے ہیں، اللہ تعالی کی رحمت ان کے قریب ہے، یہ اللہ تعالی کے محبوب بندے ہیں، ان پر آخرت میں نہ کچھ خوف ہوگااورنہ وہ غمگین ہوں گے ۔ اوران کے ساتھ دشمنی کرنے والے کواللہ تعالی کی طرف سے اعلان نگ ہے۔ اب کون ہے جوالہ تعالی کے ساتھ جنگ کرسکتاہے؟
قرآ ن پاک میں ارشادخداوند ی ہے:
(ا َلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (62) الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُونَ)
ترجمہ کنز العرفان: سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔ ( پارہ11، سورۃ یونس، آیت: 62، 63)
مزیدارشادپاک ہے:
(اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ)
ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ کی رحمت نیکوں کے قریب ہے۔ (سورۃ الاعراف، پ 08، آیت 56)
مزیدارشادپاک ہے: (اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ) ترجمہ کنزالعرفان: بے شک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔ (سورۃ التوبۃ، پ10، آیت 04)
تفسیر صراط الجنان میں ہے ”لفظِ "ولی" وِلَاء سے بناہے جس کا معنی قرب اور نصرت ہے۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو، جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثنا ہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کا ذریعہ ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے۔ ۔ مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں، ان میں سے 3 معنی درج ذیل ہیں: (1) مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے۔ (2) مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلا ہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے۔ (3) قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں۔ “ (صراط الجنان، جلد4، صفحہ344، 345، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اولیاء اللہ کی گستاخی کاانجام:
صحیح بخاری میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
”من عادی لی ولیا فقدآذنتہ بالحرب“
ترجمہ: جو میرے کسی وَلِی سے دُشمنی رکھے، میں اسے اِعْلانِ جنگ دیتا ہوں۔ (صحیح البخاری، جلد8، صفحہ105، حدیث: 6502، مطبوعہ: مصر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4274
تاریخ اجراء: 05ربیع الثانی1447 ھ/29ستمبر 2520 ء