
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی صحابی یا صحابیہ کو خواب میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہونا ثابت ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و صحابیات رضی اللہ عنہن کو خواب میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی، جن میں سے چند ایک کے اسمائے مبارکہ یہ ہیں: حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک، حضرت امام حسن، حضرت بلا ل حبشی اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
سنن ترمذی، مشکوۃ المصابیح، ہدایۃ الرواۃ، مصابیح السنۃ اور جامع الاصول میں ہے،
واللفظ للاول: ”عن رزين قال: حدثتني سلمى قالت: دخلت على أم سلمة وهي تبكي، فقلت: ما يبكيك؟ قالت: رأيت رسول اللہ تعني في المنام وعلى رأسه ولحيته التراب، فقلت: ما لك يا رسول اللہ؟ قال: شهدت قتل الحسين آنفا“
ترجمہ :حضرت رزین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سلمی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں، تو میں نے عرض کی:آپ کیوں رو رہی ہیں؟ فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا یعنی خواب میں اس حال میں دیکھا کہ ان کے سر مبارک اور داڑھی شریف پر غبار(مٹی) تھی، تو میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! معاملہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: ہم ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت گاہ (یعنی میدان کربلا) میں گئے تھے۔ (سنن ترمذی، جلد6، صفحہ116، مطبوعہ دار الغرب الإسلامي، بيروت)
مسند امام احمد بن حنبل، المعجم الکبیر، المستدرک للحاکم، مشكوة المصابيح، ہدایۃ الرواۃ اور فضائل صحابہ میں ہے،
واللفظ للاول: ”عن عمارعن ابن عباس قال: رأيت النبي صلی اللہ علیہ وسلم فيما يرى النائم ذات یوم بنصف النهار، وهو قائم أشعث أغبر، بيده قارورة: فيها دم، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول اللہ، ما هذا؟، قال هذا دم الحسين وأصحابه، لم أزل ألتقطه منذ اليوم، فأحصينا ذلك اليوم، فوجدوه قتل في ذلك اليوم “
ترجمہ: حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھمانے فرمایا: میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو(بعد وصال) ایک دن دوپہر کے وقت اپنے خواب میں اس حال میں کھڑے دیکھا کہ آپ علیہ السلام کے مبارک بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک شیشی تھی جس میں خون تھا، تومیں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے، جس کو میں آج صبح سے جمع کر رہا ہوں۔ ( حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں) ہم نے اس دن کا حساب لگایا، تو وہی دن پایا جس دن امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ (مسند امام احمد بن حنبل، جلد3، صفحہ156، مطبوعہ دارالحدیث، قاھرہ)
مذکورہ حدیث کے تحت علامہ علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”ای: بعد موته عليه السلام“
ترجمہ: یعنی حضرت عبد اللہ بن عباس نے حضورعلیہ السلام کو وصال شریف کے بعد( خواب میں دیکھا)۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد9، صفحہ3987، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
مسند امام احمدبن حنبل، طبقات الکبری، تاریخ دمشق، البدایہ والنہایہ اور جامع الاصول میں ہے،
واللفظ للاول: ”حدثنا المثني، قال: سمعت أنسا يقول: قل ليلة تأتي علي إلا وأنا أرى فيها خليلي صلي اللہ علیہ وسلم وأنس يقول ذلك وتدمع عيناه “
ترجمہ : حضرت مثنی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں بیان فرمایاکہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ بہت ہی کم رات مجھ پر ایسی آئی ہے جس میں، میں نے اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہ کی ہو، (راوی فرماتے ہیں کہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ جب یہ بیان فرمارہے تھے، تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (مسند امام احمد بن حنبل، جلد20، صفحہ464، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بيروت)
مجمع الزوائد ومصنف ابن ابی شیبہ میں ہے،
واللفظ للاول: ”عن ابن عمر أن عثمان أصبح يحدث الناس قال: رأيت النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في المنام، فقال: يا عثمان، أفطر عندنا، فأصبح صائما، وقتل من يومه رضي اللہ عنه وكرم وجهہ“
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امیر المومومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ صبح کے وقت یہ بیان فرمارہے تھے: میں نےخواب میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: اے عثمان (روزہ) ہمارے پاس افطار کرنا، پس انہوں نے روزہ رکھا اور اسی دن شہید ہوگئے، اللہ پاک ان سے راضی ہوا ور ان کا چہرہ مکرم فرمائے۔ (مجمع الزوائد، جلد7، صفحہ232، مطبوعہ مکتبۃ القدسی، قاھرہ)
المعجم الاوسط و جامع المسانید میں ہے،
واللفظ للاول: ”عن فلفلة الجعفي قال: سمعت الحسن بن علي، يقول: رأيت النبي صلی اللہ علیہ وسلم في المنام متعلقا بالعرش، ورأيت أبا بكر آخذا بحقوى النبي صلی اللہ علیہ وسلم ورأيت عمر آخذا بحقوى أبي بكر، ورأيت عثمان آخذا بحقوى عمر“
ترجمہ: حضرت فلفہ جعفی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا: آپ رضی اللہ عنہ نے خواب میں نبی پاک کو عرش کو تھامے ہوئے دیکھا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھامے دیکھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دامن اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دامن تھامے دیکھا ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، جلد27، صفحہ195، مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)
تاریخ دمشق و شرح زر قانی میں ہے،
واللفط للاول ”عن ابی الدرداء عن بلال، أنه لما نزل بداريا رأى في منامه النبي صلی اللہ علیہ وسلم، وهو يقول: ما هذه الجفوة يا بلال، أما آن لك أن تزورني، فانتبه حزينًا خائفًا، فركب راحلته وقصد المدينة، فأتى قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فجعل يبكي ويمرغ وجهه عليه“
ترجمہ :حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ جب مقام "داریا" میں تشریف لائے، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خواب میں دیکھا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے(مخاطب ہوکر) ارشاد فرمایا: اے بلا ل! یہ کیا جفا ہے ؟ کیا تجھے ابھی وہ وقت نہ آیا کہ میری زیارت کو حاضر ہو؟ پس حضرت بلال رضی اللہ عنہ غمگین و خوف زدہ حالت میں بیدار ہوئے، پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ طیبہ کا قصد کیا، پس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوئے، تورونا شروع کردیااور اپنے چہرہ پر خاک ملنے لگے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر، جلد7، صفحہ 137، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : عبدالرب شاکرعطاری مدنی
مصد ق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : Sar-9382
تاریخ اجراء : 04محرم الحرام1447 ھ/30جون2025ء