کیا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما صحابی تھے؟

کیا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما مرتبہ صحابیت پر فائز تھے؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع میتن  اس مسئلے کے بارے میں کہ  کیا حضرت سیدنا امام حسن  اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما مرتبہ صحابیت پر فائز تھے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ریحانۃ الرسول ،سبط اکبر ،امامِ ہُمام ، حضرت سیّدنا حسن مجتبیٰ  اور شہزادہ  گلگوں قبا،امام عالی مقام، سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں ہی بالیقین صحابی تھے ،ان حضرات کا منصب ِ صحابیت پر فائز ہونا  مختلف  اور متعدد وجوہ سے ثابت ہے ۔

(اولاً) :اجلہ مستند ائمہ کرام نے ان امامین کریمین کے صحابی ہونے کی  مختلف مواقع پر متنوع الفاظ مثلاً:

’’له صحبة ،قد صحبه ‘‘كےساتھ صراحت فرمائی ہے ۔

*اسی طرح صحابہ  کرام کے احوال و آثار  پر لکھی جانے والی کتب ،مثلاً :اسد الغابہ،الاصابۃ فی تمییز  الصحابۃ  ،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،معجم الصحابہ للبغوی،معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم  ،ان كے علاوه ديگر كتب مثلاً: الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ،سير اعلام  النبلاء میں ان حضرات کو  صحابی کے طور پر شمار کر کے ان کے احوال کوکہیں مختصراً اور کہیں شرح و بسط کے ساتھ  بیان کیا گیا ہے۔فتاوی رضویہ  شریف کے ایک رسالے’’ اعتقاد الاحباب ‘‘ میں صراحت کے ساتھ ان حضرات کو صحابی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔

*اسی طرح جن احادیث کو سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنے  والد کریم سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہسے روایت کیا ہے،اس کے لطائف میں محدثین نے اس کی صراحت کی ہے، اس کے رجال میں دو صحابی  (یعنی سیدنا علی المرتضی اور سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) شامل ہیں ۔

سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحابی ہونے کے حوالے سے ابو الفضل احمد بن علی المعروف بابن حجر عسقلانی  متوفی(852)ہجری  ’’تقریب التہذیب ‘‘میں لکھتے ہیں :

’’الحسن ابن علی ابن أبی طالب الهاشمی سبط رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وريحانته وقد صحبه وحفظ عنه مات شهيدا بالسم ‘‘

ترجمہ: حضرت حسن بن علی بن ابو طالب ہاشمی، نبی کریم صَلَّى اللهُ تعالی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے نواسے اور آپ کے پھول تھے۔ انہوں نے رسولِ اکرم صَلَّى اللهُ تعالی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کی صحبت پائی،آپ سے احادیث محفوظ کیں، زہر دیے جانے کے باعث شہید ہوئے۔(تقریب التھذیب،صفحہ 162،دار الرشید ،سوریا)

سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کے صحابی ہونے کے حوالے سے ابو محمد عبدالرحمن بن  محمد الرازی متوفی (327)ہجری ’’الجرح و التعدیل ‘‘میں لکھتے ہیں:

الحسين بن علی بن أبی طالب أبو عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ له صحبة روى عنه ابنه علی بن الحسين وابنته فاطمة بنت الحسين

ترجمہ: ابوعبداللہ حسین بن علی منصب صحابیت پر فائز ہیں ،آپ سے آپ کے بیٹے  علی بن حسین اور بیٹی فاطمہ بنت حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہمانے روایت کیا ۔ (الجرح و التعدیل،جلد3،صفحہ 55،حیدر آباد دکن)

مجدد اعظم امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:” ان کے بعد اصحابِ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہیں، اور اُنہیں میں حضرت بتول ، جگر پارہ رسول ، خاتونِ جہاں، بانوے جہاں، سیدۃ النساء فاطمہ زہرا  اور اس دو جہاں کی آقا زادی کے دونوں شہزادے، عرش  کی آنکھ کے دونوں تارے ، چرخِ سیادت کے مہ پارے ، باغِ تطہیر کے پیارے پھول ، دونوں قرۃ العین رسول،امامین کریمین،سعید ین شہیدین تقیین نقیین نیرین  طاہرین ابومحمدحسن و ابوعبداحسین، اورتمام مادرانِ اُمت،بانوانِ رسالت علی المصطفٰی وعلیھم کلھم الصلوۃ والتحیۃ داخل ۔۔۔الخ“ (فتاوی رضویہ ،جلد29،صفحہ 355،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

بخاری شریف کی حدیث مبارک ہے :

حدثنا أبو اليمان قال أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني علي بن حسين أن حسين بن علي أخبره أن علي بن أبي طالب أخبره أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم طرقه وفاطمة بنت النبی صلى اللہ عليه وسلم ليلة فقال ألا تصليان ۔۔۔الخ‘‘

مذکورہ  بالا سند کے فوائد بیان کرتے ہوئے شارح ِ حدیث بدرالدین محمود بن احمد بن موسىٰ عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(متوفی 855ھ)فرماتے ہیں:

وفيه:رواية التابعي عن الصحابي، ورواية الصحابي عن الصحابي

ترجمہ:اس حدیث کی سند  میں تابعی(علی بن حسین )نے صحابی (حسین بن علی )سے اور صحابی (حسین بن علی )نے مزید ایک اور صحابی (سیدنا علی المرتضی )سے روایت کیا ہے ۔(عمدۃ القاری، جلد7،صفحہ 174، مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

(ثانیاً):امام بخاری نے صحیح بخاری میں ” کتاب اصحاب النبی “ کے نام سے مختلف صحابہ کرام کے مناقب  و فضائل کو جمع کیا ہے، اس  میں حضرات سیدنا امام عالی  مقام اور آپ کے برادر اکبر سبط رسول جناب حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں  کے مناقب کےلئے مستقل باب قائم کیا ہے ”باب مناقب الحسن والحسين رضي الله عنهما “یہی چیز دیگر کئی محدثین کرام سے بھی ثابت ہے ۔

(ثالثاً):محدثین کی ایک جماعت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کسی  بھی راوی   سے روایت مقبول ہونے کے لیے اس کا بالغ ہونا ضروری ہے ،ان کے اس مؤقف  کارد کرتے ہوئے جمہور محدثین کی طرف سے یہ چیز ذکر کی گئی ہے کہ اگر یہ مؤقف درست  تسلیم کر لیا جائے، تو پھر حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرنا بھی درست نہیں ہو گا، حالانکہ ائمہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ صغار صحابہ کرام مثلاً:حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ تعالیٰ عنہمااور دیگر سے حدیث روایت کرنا درست ہے ۔

شمس الدین سخاوی متوفی (902)ہجری’’ فتح المغیث  بشرح الفیۃ الحدیث ‘‘میں لکھتے ہیں :

(ورد) على القائلين بعدم قبول الصبي بإجماع الأئمة على قبول حديث جماعة من صغار الصحابة مما تحملوه في حال الصغر (كالسبطين) ، وهما الحسن والحسين ابنا ابنته صلى اللہ عليه وسلم فاطمة الزهراء، والعبادلة: ابن جعفر بن أبي طالب، وابن الزبير، وابن عباس

ترجمہ:جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ بچے کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا،ان کا اس طور پر رد کیا گیا ہے کہ ائمہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ صغار صحابہ کرام کی جماعت ،مثلاً:حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ تعالیٰ عنہما   جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی شہزادی حضرت فاطمہ الزہراء  رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے ہیں ،حضرات عبادلہ یعنی عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب ،عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ جنہوں نے اپنے بچپن کی حالت میں  حدیث  مبارک کی سماعت کی تھی،  ان سے حدیث مبارک روایت کرنا جائز ہے۔ (فتح المغیث  بشرح الفیۃ الحدیث،جلد2،صفحہ 140 ،مکتبۃ السنۃ،مصر )

(رابعاً):کئی محدثین  کرام نے حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مرتبہ صحابیت پر فائز ہونے کے  حوالے سے اتفاق و اجماع تک نقل کیا   ہے ۔اس کی مزید  تفصیل یہ ہے  کہ کسی شخص کے مرتبہ صحابیت پر فائز ہونے کے حوالے سے متعلقہ شخص کی مطلوبہ عمر کے حوالے سے محدثین کے تین  اقوال ہیں:

(الف):اس شخص کا بالغ ہونا شرط ہے ۔

(ب):اس شخص کا صبی ممیز ہونا بھی کافی ہے ۔

(ج):سن تمیز تک پہنچنا بھی ضرور ی نہیں، بلکہ صبی غیر  ممیز  بھی سیدعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت سے مشرف ہوا، تو اس کے لیے بھی مرتبہ  صحابیت ثابت ہو گا۔

جمہور محدثین کرام نے  پہلے قول  یعنی بلوغت کی شرط کو رد کرتے ہوئے اس چیز کو ذکر کیا ہے کہ اگر یہ قید تسلیم کر لی جائے ،تو پھر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دائرہ صحابیت  سے باہر ہو  جائیں گے ،حالانکہ آپ کا اس منصب پر فائز ہونااتفاقی  مسئلہ  ہے ۔ شیخ برہان الدین ابناسی متوفی(802 ھ)  ’’الشذ الفیاح من علوم ابن الصلاح ‘‘میں لکھتے ہیں:

” والصحيح أن البلوغ ليس شرطا في حد الصحابي وإلا لخرج بذلك من أجمع العلماء على عدهم في الصحابة كعبد اللہ بن الزبير والحسن والحسين رضي اللہ عنهم

ترجمہ:صحیح قول کے مطابق صحابی کی تعریف میں  بالغ ہونا شرط نہیں ہے ،(اگر یہ  قید معتبر ہو تو )حضرت عبداللہ بن زبیر ،حضرت حسن ،حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ صحابیت کی تعریف سے خارج ہو جائیں گے ،حالانکہ ان کو صحابہ کرام میں شمار کرنے پر علما   کا اجماع ہے ۔(الشذ الفیاح من علوم ابن الصلاح    ،جلد1،صفحہ 490، مکتبۃ  الرشد،ریاض)

یہی مفہوم  ابو الفضل زین الدین عبدالرحیم بن حسین عراقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی: (806ھ )  نے بھی اپنی کتاب’’ التقیید و الایضاح شرح مقدمہ ابن الصلاح ‘‘  صفحہ 295 میں ذکر کیا ہے۔

صحابی کی تعریف میں ذکر کیے گئے مذکورہ بالا تین  اقوال میں  سے  پہلا تو بالاتفاق مرجوح ہے ،بقیہ دونوں  کی روشنی میں دیکھا جائے،تو بھی حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر صحابی کی تعریف صادق آتی ہے کہ مشہور  قول کے مطابق سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  15 رمضان المبارک 3 ہجری   کو اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ 5 شعبان 4ہجری کو  اس دنیا میں تشریف لائے ۔یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال  ظاہری کے وقت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی عمر  سات سال  سے زیادہ  اور سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی عمر  چھ سال سے زیادہ تھی ،اور اس  عمر کا بچہ بالیقین ممیز ہوتا ہے ۔

’’الاکمال فی اسماء الرجال ‘‘ میں  سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہے:

’’ولد في النصف من شهر رمضان سنة ثلاث من الهجرة، وهو أصح ما قيل في ولادته ‘‘

ترجمہ:آپ کی ولادت نصف رمضان  سن 3ہجری کو ہوئی۔آپ کی ولادت کے حوالے سے جو مختلف اقوال ہیں، ان میں سے یہ سب سے صحیح ہے ۔ (لمعات التنقيح  ،جلد10،صفحه 62،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

اسی میں  سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہے :

ولد  لخمس خلون من شھر شعبان سنۃ اربع

ترجمہ:آپ کی ولادت مطہرہ  5 شعبان 4ہجری کو ہوئی تھی۔ (لمعات التنقيح  ،جلد10،صفحه 62،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

اسی حوالے سے ’’مرآۃ المناجیح ‘‘میں ہے :” امام حسین کا نام شریف حسین ابن علی ابن ابی طالب ابن عبدالمطلب ہے،کنیت ابو عبدالله ہے،پانچ شعبان      ۴ھ؁ کو پیدا ہوئے اور جمعہ کے دن دس محرم     ۶۱ھ؁ کو کربلا میں شہید ہوئے۔ “ (مرأۃالمناجیح، جلد8،صفحہ387،قادری پبلشرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-2358

تاریخ اجراء: 02محرم الحرام 1447 ھ/28جون2025 ء