
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9215
تاریخ اجراء:28 جمادی الثانی 1446 ھ/ 31 دسمبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ تعالی نے قرآن ِ کریم میں ارشاد فرمایا ﴿عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى ﴾ ترجمہ: انہیں سخت قوتوں والے نے سکھایا۔(النجم: 5) آیت کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت جبریل علیہ السلام نے قرآن سکھایا۔ گویا اِس آیت ِمبارکہ میں حضرت جبریل امین علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا معلم اور استاد ہونا بتایا گیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے استاد ہیں؟ اگر یہ درست نہیں، تو فتاوی رضویہ میں جو حضرت جبریل امین کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استاد ہونے کا ذکرہے، جیساکہ فتاوی رضویہ میں ہے : جبرئیل علیہ السلام من وجہ رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے استاذ ہیں، قال تعالٰی﴿عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى﴾۔“ (فتاوی رضویہ، 29353/)، اس کا کیا محمل ہے؟ اس بارے میں تفصیلاً رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ آیت مبارکہ میں قرآن کریم سکھانے والے سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں مفسرین کی آرا ء مختلف ہیں۔ بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں سکھانے والے سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس کو ہی لیا ہے، اس تفسیر کے بعد حضرت جبریل امین علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے استاد نہ ہونے میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں رہے گا۔
اور جن مفسرین کے نزدیک قرآن کریم سکھانے والے سے حضرت جبریل علیہ السلام مراد ہیں، اسی طرح جن احادیث میں تعلیم کی نسبت حضرت جبریل امین علیہ السلام کی طرف ہے، تو ان مفسرین اور محدثین کی ان مقامات پرتعلیم سے مراد یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اللہ تبارک و تعالی کے درمیان واسطہ، مبلغ، قاصد، پیغام الہی، وحی ِ الہی پہنچانے اور احکام الہیہ کی بظاہر صورتِ تدریس تلقین کرتے تھے اور یہ بات بدیہی ہے کہ کسی قاصد اور پیغام رساں کو استاد کا انداز اختیار کرنے پر حقیقی استاد قرارنہیں دیا جا سکتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام خدا کے پیغامات و احکام نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچاتے تھے اور اسی کو سوال میں مذکور آیت میں بیان کیا گیاہے جس کے لئے تعلیم کرنے کا لفظ بیان ہوا ہے اور اسی لفظ کی مناسبت سے بعض علماء و مفسرین نے جبرئیل امین علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا استاد ومعلم لکھا ہے اور یہ ضمنی، مجازی و وسیلہ کے اعتبار سے درست ہے، لیکن حقیقت میں جبرئیل امین، کلی طور پر یامطلق طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے استاد نہیں ہیں، کیونکہ خود قرآن ہی سے ثابت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تمام تعلیم خدا کی طرف سے ہے۔
اس حوالے سے اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا مؤقف بھی یہی ہے کہ حضرت جبریل امین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلقا استاد نہیں ہیں، جیساکہ یہ بات سوال میں بیان کردہ فتاوی رضویہ کی عبارت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اس میں امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جبریل امین علیہ السلام کو صرف من وجہ استاد کہا ہے کہ حضرت جبریل کا پیغام پہنچانے کا انداز صورتاً استاد کے مشابہ تھا۔
قرآن مجید سے بھی یہی واضح ہوتا ہے،جیساکہ﴿وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ﴾ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”اس سے معلوم ہوا کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استاد نہیں بلکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ سے سیکھا ہے جبکہ حضر ت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام خادم اور قاصد بن کر تشریف لاتے رہے۔“(صراط الجنان، جلد 7، صفحہ 60، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مخلوق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی استاد نہیں، جیساکہ ”اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ“ آیت کے تفسیری نکات کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:”حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآن سکھایا۔ مخلوق میں سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کوئی استاد نہیں۔“(صراط الجنان، جلد 9، صفحہ 236، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی شارح بخاری میں ہے: ”یہ غلط ہے کہ حضرت جبرئیل امین حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے استاذ ہیں۔ وحی پہنچانے میں حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ والتسلیم کی حیثیت صرف ایک قاصد کی تھی۔۔۔ جبرئیل امین حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے استاذ نہیں۔(فتاوی شارح بخاری، جلد 1، صفحہ 380- 882، مطبوعہ دائرۃ البرکات)
اللہ تعالی کے سکھانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی استاد کےکیسے محتاج ہوں؟ جیساکہ امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک شعر میں فرمایا:
ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اُس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ نہیں
(حدائق بخشش،صفحہ106،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو قرانِ کریم اور دیگر علوم سکھائے ،جیساکہ درج ذیل آیات میں ہے:
(1): ﴿وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ﴾ ترجمہ کنزالعرفان :اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو قرآن سکھایا جاتا ہے حکمت والے، علم والے کی طرف سے۔(پارہ19،سورۃالنمل،آیت:6)
(2): ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ﴾ترجمہ کنزالعرفان :رحمٰن نے قرآن سکھایا۔(پارہ 27، سورۃ الرحمن، آیت: 1-2)
(3): ﴿اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ﴿17﴾فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِـعْ قُرْاٰنَهٗ﴿18﴾ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَه﴾ترجمہ کنز العرفان :بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔تو جب ہم اسے پڑھ لیں تو اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ پھر بیشک اسے بیان فرمانا ہمارے ذمہ ہے۔(پارہ 29، سورۃ القیامہ، آیت: 17-19)
(4): ﴿وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا﴾ ترجمہ: کنزالعرفان:اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔(پارہ 4، سورۃ النساء، آیت: 113)
سوال میں بیان کردہ آیت مبارکہ میں ﴿عَلَّمَهٗ﴾ کا لفظ قاصد، مبلغ، پیغام رساں کے معنی میں ہے، جیساکہ تفسیر سمر قندی میں ہے :”﴿عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى﴾ يعني: أتاه جبريل عليه السلام، وعلمه۔۔۔ و يقال: علمه شديد القوى يعني: اللہ تعالى يعلمه بالوحي و هو ذو القوة المتين“ ترجمہ: قوت والے نے قرآن سکھایا: یعنی قرآن کریم کو حضرت جبریل لے کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو سکھایا اور اس کا معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے وحی کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن کریم سکھایا اور وہ قوت والا ہے۔(تفسیر السمرقندی، جلد 3، صفحہ 288، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت)
صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :1367 ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں: ”بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ سخت قوتوں والے طاقتور سے مراد حضرت جبریل اور سکھانے سے مراد بتعلیمِ الہٰی سکھانا یعنی وحی الہٰی پہنچانا ہے۔“(خزائن العرفان، صفحہ 969، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
تفسیر کبیر میں ہے کہ یہاں تعلیم بمعنی تلقین ہے، جیساکہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ﴾ اور ﴿عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى﴾ میں تطبیق بیان کرتے ہوئے، علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :”وأما الجمع بينه وبين قوله تعالى: علمه شديد القوى فذاك بحسب التلقين، و أما التعليم فمن اللہ تعالى كما أنه تعالى قال: قل يتوفاكم ملك الموت ثم قال تعالى:اللہ يتوفى الأنفس حين موتها“ ترجمہ: دونوں آیتوں میں تطبیق یوں ہے کہ ﴿عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى﴾میں حضرت جبریل امین کی طرف سکھانے کی نسبت بحیثیت تلقین کے ہے ،حقیقت میں سکھانا اللہ تبارک و تعالی ہی کی طرف سے ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے موت دینے کے متعلق ایک مقام پر فرمایا: تمہیں ملک الموت وفات دیتے ہیں، پھر دوسرے مقام پر فرمایا: اللہ ان جانوں کو موت کے وقت وفات عطا فرماتا ہے۔(مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير، جلد 6، صفحہ 525- 526، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي، بيروت)
یونہی ”اللباب فی علوم الکتاب“میں بھی ہے۔(اللباب فی علوم الکتاب، جلد 4، صفحہ 302، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
جن احادیث میں یہ ذکر ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو اور نماز کا طریقہ سکھایا، وہاں یہ انداز اختیار کرنا تعلیم امت کے لیے تھا، جیساکہ اس توجیہ اور محمل کے متعلق مرقاۃ المفاتیح میں ہے :”ولعله لتعليم الأمة“ ترجمہ :حضرت جبریل امین علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتانا، تعلیم امت کے لیے تھا۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 1، صفحہ 74، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بيروت)
مرآۃ المناجیح میں ہے :”امت کی تعلیم کے لیے ورنہ حضور خود تو پہلے ہی سب کچھ جانتے تھے، نبوت سے پہلے غارثور میں اعتکاف اور عبادت کرتے تھے، مگر اب یہ احکام شرعیہ بنے، لہذا جبرئیل امین نے سکھایا نہیں، بلکہ رب کی طرف سے پہنچایا،لہذا جبرائیل امین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں، استاد نہیں، سکھانے والا رب ہے۔“(مرآۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 255، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)
امام اہلسنت کے نزدیک بھی حضرت جبریل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلقا استاد کہنا درست نہیں، جیساکہ فتاوی شارح بخاری کی درج ذیل عبارت سے یہی واضح ہوتا ہے، چنانچہ فقیہِ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1421ھ/ 2000ء) لکھتے ہیں: ” پیغام پہنچانے والا استاد نہیں ہوتا، اس خصوص میں مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ کا ایک رسالہ بھی ہے، افسوس یہ ہے وہ طبع نہیں ہوا۔۔۔ جبرئیل امین وحی پہنچانے کا واسطہ تھے، بلا تمثیل جیسے زبانی پیغام کسی کے ذریعہ مثلاً زید کے ذریعہ عمر و تک بھیجا جائے اور زید عمرو تک پیغام پہنچا دے تو زید، عمرو کا استاذ نہیں ہوتا اسی طرح حضرت جبرئیل امین اللہ عز وجل کے ارشادات حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک پہنچانے کا واسطہ تھے۔“(فتاوی شارح بخاری، جلد 1، صفحہ 381- 382، مطبوعہ دائرۃ البرکات)
امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے جبریل امین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کےلئے بطورقاصد، پیغام رساں اور انداز ِتبلیغ استاد کے مشابہ ہونے کی وجہ سے من وجہ استاد کہا ہے، جیساکہ فتاوی رضویہ کے سیاق و سباق سے یہی معلوم ہوتا ہے: ”جبرئیل علیہ السلام مِن وَجہٍ رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے استاذ ہیں قال تعالٰی﴿عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى﴾۔( سکھایا ان کو یعنی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو سخت قوتوں والے طاقتور نے، یعنی جبرائیل علیہ السلام نے جو قوت و اجلال خداوندی کے مظہرِ اتم، قوت جسمانی وعقل و نظر کے اعتبار سے کامل وحی الہٰی کے بار کے متحمل، چشم زدن میں سدرۃ المنتہٰی تک پہنچ جانے والے جن کی دانشمندی اور فراست ایمانی کا یہ عالم کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بارگاہوں میں وحی الہی لے کر نزول اجلال فرماتے اور پوری دیانتداری سے اس امانت کو ادا کرتے رہے پھر وہ کسی کے شاگرد کیا ہوں گے جسے ان کا استاذ بنائیے۔ اسے سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا استاذ الاستاذ ٹھہرائیے۔۔۔ وحیِ الہٰی کے امانت دار، کہ انکی امانت میں کسی کو مجال حرف زدن نہیں پیامِ رسانی وحی میں امکان نہ سہو کا نہ کسی غلط فہمی و غلطی کا اور نہ کسی سہل پسندی اورغفلت کا، منصب رسالت کے پوری طرح متحمل، اسرار و انوار کے ہر طرح محافظ، فرشتوں میں سب سے اونچا ان کا مرتبہ و مقام اور قرُب قبول پر فائز المرام، وہ صاحبِ عزت و احترام کہ) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سوا دوسرے کے خادم نہیں۔(اور تمام مخلوقات میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے علاوہ کوئی اور ان کا محذوم و مطاع نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 29، صفحہ 353- 354، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم