Nabi Kareem ﷺ Ke Imama Shareef Ke Rang Aur Lambai Ki Tafseel

نبی کریم ﷺ کے عمامہ شریف کے رنگ اور لمبائی وغیرہ کی تفصیل

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0468

تاریخ اجراء:04 جمادی الاخری 1446ھ/07دسمبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ:

   (1) حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کن رنگوں کے عمامہ شریف پہنتے تھے؟

   (2) نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو عمامہ شریف باندھتے تھے، اس کی مقدار لمبائی میں کتنی تھی؟

   (3) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ٹوپی کیسی تھی؟ یعنی کس رنگ کی تھی؟ اونچی ہوتی تھی یا سر اقدس سے چپکی  ہوئی ہوتی تھی؟

   (4) آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمامہ باندھنے کا طریقہ  کونسا تھا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تمام سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

   (1) حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر سفید رنگ کا عمامہ شریف پہنتے تھے، جبکہ سفر مبارک میں زیادہ تر  حرقانی رنگ کا عمامہ شریف سر اقدس پر سجا ہوتا تھا۔ حرقانی خالص سیاہ رنگ نہیں ہوتا بلکہ کسی چیز کو آگ سے جلادینے کے بعد جو سیاہی مائل رنگ ظاہر ہوتا ہے، یہ عمامہ شریف بھی اسی رنگ کا تھا، ان کے علاوہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف اوقات میں مختلف رنگوں کے عمامے شریف پہننا ثابت ہے، جیسے سیاہ، زرد، زعفرانی، سرخ دھاری دار اور سبز رنگ  اور صحابہ کرام علیہم الرضوان   سے بھی ان  تمام رنگوں کے عمامے پہننا ثابت ہے۔

   (2)حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چھوٹا عمامہ شریف سات ہاتھ(ساڑھے تین گز ) اور بڑا عمامہ شریف بارہ ہاتھ(چھ گز) کا ہوتا تھا، اس کے علاوہ بعض حالات میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس سے بھی بڑے  عمامے شریف پہننا ثابت ہے، لیکن فقہائے کرام کے فرمان کے مطابق  ہمارے حق میں سنت یہی ہے کہ چھ گز سے زائد نہ ہو۔

   (3)حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف رنگوں کی ٹوپیاں استعمال فرمانا ثابت ہے، جیسے سفید، سبز دھاری دار، زرد اور وہ ٹوپی مبارک کبھی تو سر اقدس سے چمٹی ہوئی    اور کبھی اٹھی ہوئی ہوا کرتی تھی۔

   (4)حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمامہ شریف گول گنبد نما باندھا کرتے تھے، زیادہ اونچا اور ابھرا  ہوا عمامہ نہیں باندھتے تھے، جس کا کبھی ایک ہی شملہ ہوتا جو مبارک کندھوں کے درمیان  رکھتے، کبھی دو شملے ہوتے جو  دونوں ہی  پیچھے رکھتے اور کبھی کبھار ایک سیدھے کندھے پر سامنے اور دوسرا پیچھے رکھتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے عمامہ شریف کے رنگ کے متعلق روایات:

   سياه عمامہ شریف کے متعلق صحیح مسلم میں ہے: ”عن جابر بن عبد اللہ: أن النبي صلى اللہ عليه وسلم دخل يوم فتح مكة، وعليه عمامة سوداء“ ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے  کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فتح  مکہ والے دن   مکہ میں  اس حال میں داخل ہوئے کہ  آپ کے سر اقدس پر سیاہ عمامہ شریف سجا تھا۔(صحیح المسلم، ج02، ص990، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   حرقانی عمامہ کے متعلق سنن نسائی میں ہے :”عن جعفر بن عمرو بن حريث، عن أبيه، قال: رأيت على النبي صلى اللہ عليه وسلم عمامة حرقانية“ ترجمہ: حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنےو الد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں   کہ میں نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حرقانی عمامہ شریف پہنے دیکھا۔(سنن النسائی، ج08، ص211، مكتب المطبوعات الإسلامية، حلب)

   حاشیۃ السیوطی علی سنن النسائی میں ہے :”عمامة حرقانية بسكون الراء أي سوداء على لون ما أحرقته النار“ ترجمہ: عمامہ حرقانیہ میں حرقانیہ کی راء ساکن ہے، اس سے مراد ایسا سیاہ رنگ جو آگ کے کسی چیز کو جلادینے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔(حاشیۃ السیوطی علی سنن النسائی ،ج08،ص 211، مكتب المطبوعات الإسلامية ،حلب)

   زرد عمامہ کے متعلق سنن ابی داؤد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے :”وقد كان يصبغ بها ثيابه كلها حتى عمامته“ ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام کپڑے زرد رنگ سے رنگتے تھے یہاں تک کہ عمامہ کو بھی۔(سنن ابی داؤد ،ج05،ص 169، دار الرسالة العالمية)

   سبل الہدی و الرشاد میں ہے :”عن عباد بن عبد اللہ بن الزبير انه بلغه جاء رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وعليه عمامة صفراء“ ترجمہ: عباد بن عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ان کو یہ روایت پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے سر اقدس پر زرد عمامہ شریف سجا  تھا۔(سبل الھدی و الرشاد، ج04، ص44، دار الكتب العلمية بيروت، لبنان)

   زعفرانی عمامہ کے متعلق معجم كبيرمیں حضرت عبد اللہ بن جعفر سے مروی ہے :”رأيتُ على رسولِ الله صلى الله عليه وسلم ثوبين مصبوغين بزعفرانٍ؛ رِداءً وعِمامةً“ ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زعفران سے رنگے دو کپڑے چادر و عمامہ پہنے دیکھا۔(المعجم الکبیر للطبرانی ،ج14،ص144،بیروت)

   سرخ دھاری دار عمامہ کے متعلق سنن ابو داؤد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے :”رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم  يتوضأ وعليه عمامة قطرية“ ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو فرماتے دیکھا اور آپ کے سر اقدس پر قطری عمامہ سجا تھا۔(السنن لابی داؤد،ج01،ص104، دار الرسالۃ العالمیہ)

   شرح عینی میں ہے :”قوله: (عمامة قطرية) هي ثياب حُمر لها أعلام فيها بعض الخشونة“ترجمہ:قطری ایسا سرخ کپڑا ہے جس میں نقش و نگار ہوتے ہیں اور اس میں کچھ کھردرا پن بھی ہوتا ہے۔(شرح ابو داؤد للعینی، ج01،ص 347،مطبوعہ ریاض)

   شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ رسالہ کشف الالتباس میں لکھتے ہیں :”آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دستار مبارک اکثر اوقات سفید ہوا کرتی تھی اور کبھی سیاہ اور کبھی  سبز۔“(کشف الالتباس ،مترجم،ص 12،مطبوعہ جمعیت اشاعت اھلسنت)

   امام جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمۃ الحاوی للفتاوی میں لکھتے ہیں :”وكثيرا ما كان يعتم بالعمائم الحرقانية السود في أسفاره“ترجمہ:اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سفر مبارک میں زیادہ تر سیاہ حرقانی عمامہ شریف سر اقدس پر سجاتے تھے۔(الحاوی للفتاوٰی ،ج01،ص،83، دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان)

   صحابہ کرام کے عماموں کے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :”عن سليمان بن أبي عبد اللہ، قال:  أدركت المهاجرين الأولين يعتمون بعمائم كرابيس سود، وبيض، وحمر، وخضر، وصفر “ترجمہ:حضرت سلیمان بن ابو عبد اللہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے  مہاجرین اولین کو سوتی کپڑوں کے کالے، سفید، سرخ، سبز اور زرد  عمامے باندھے دیکھا۔(المصنف لابن ابی شیبۃ، ج05، ص181، مطبوعہ  الرياض)

   حرقانی عمامے کے متعلق طبقات ابن سعد میں رشدین بن کریب سے ہے :”رأيت عبد اللہ بن عمرو يعتم بعمامة حرقانية“ ترجمہ: میں نے جناب عبد اللہ بن  عمرو رضی اللہ عنہ کو حرقانی عمامہ شریف  باندھتے  دیکھا۔(الطبقات الکبری، ج04، ص200، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   زعفرانی عمامے کے متعلق اسد الغابہ میں حضرت صحابئ رسول زبرقان بن بدر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے: ”انه لبس عمامة مزبرقة بالزعفران“ترجمہ:آپ رضی اللہ عنہ نے زعفران سے رنگا ہوا عمامہ سر اقدس پر سجایا۔(اسد الغابۃ،ج02،ص 303،دار الکتب العلمیہ)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمامہ کی مقدار کے متعلق جزئیات:

   بہارِ شریعت میں ہے:”مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں مذکور ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چھوٹا عمامہ سات ہاتھ کا اور بڑا عمامہ بارہ ہاتھ کا تھا،بس اسی سنت کے مطابق عمل رکھے،اس سے زیادہ بڑا عمامہ نہ رکھے۔“(بھار شریعت، ج3، ص419، مکتبۃ المدینہ)

   رسالہ کشف الالتباس میں ہے :”کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خانگی عمامہ سات یا آٹھ گز ہوتا اور پنجگانہ نمازوں کے وقت بارہ گزاور عید کے روز چودہ گز اور جنگ و حرب کے وقت پندرہ گز۔“(اس گز سے مراد شرعی گز ہے جو چوبیس انگلیاں ہوتا ہے۔)(کشف الالتباس ،مترجم مع حاشیہ، ص14،مطبوعہ جمعیت اشاعت اھلسنت)

   فتاوٰی رضویہ  میں ہے :”عمامہ میں سنّت یہ ہے کہ ڈھائی گز سے کم نہ ہو، نہ چھ گز سے زیادہ۔“(فتاوٰی رضویہ، ج2، ص186،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ٹوپی شریف  کے متعلق روایات:

   ٹوپی شریف کے رنگ کے متعلق تاریخ الخمیس اور سبل الہدی و الرشاد میں ہے :”عن ابن عباس قال كان لرسول اللہ ثلاث قلانس بيضاء مضربة وقلنسوة برد حبرة وقلنسوة ذات آذان يلبسها فى السفر والحرب“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین ٹوپیاں تھیں : سفید کڑھائی والی، سبز دھاری دار اور کانوں والی ٹوپی جس کو آپ علیہ السلام سفرو جنگ میں پہنتے تھے۔(تاریخ الخمیس، ج02، ص190، دار صادر- بيروت)(سبل الھدی و الرشاد،ج07،ص 284،دار الکتب العلمیۃ)

   سبل الہدی  و الرشاد میں ہے :”برد: ثوب مخطط.حبرة: قال الداودي الحبرة ثوب أخضر“ ترجمہ: برد دھاری دار کپڑے کو کہتے ہیں اور حبرہ کے متعلق داودی نے کہا کہ یہ سبز کپڑے کو کہتے ہیں۔(سبل الھدی و الرشاد، ج07،ص 286،دار الکتب العلمیہ)

   امام تقی الدین المقریزی علیہ الرحمۃ  اپنی کتاب امتاع الاسماع میں  لکھتے ہیں :”ترك رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عشرة أثواب(منھا )قلانس صفار“ ترجمہ: حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد از وفات دس کپڑے چھوڑے جن میں پیلی ٹوپیاں بھی تھیں۔(امتاع الاسماع ،ج07،ص10،دار الكتب العلمية، بيروت)

   ٹوپی شریف کی کیفیت کے متعلق، ابو الشیخ اصبہانی حضرت سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :”رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وله قلنسوة طويلة، لها أذنان، وقلنسوة لاطية“ ترجمہ: میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ،آپ کی ایک لمبی ٹوپی تھی جس کے دو، کان تھے اور دوسری ٹوپی سر سے چمٹی ہوئی تھی۔(اخلاق النبی و آدابہ، ج02، ص213، دار المسلم للنشر و التوزيع)

   فیض القدیر میں ہے :”(لاطئة) أي لاصقة برأسه غير مقبية أشار به إلى قصرها وخفتها“ ترجمہ: لاطیہ سے مراد  یہ ہے کہ وہ ایسی ٹوپی تھی جو سر اقدس سے چپکی ہوئی  تھی، اٹھی ہوئی نہ تھی۔ اس سے ٹوپی کے چھوٹے اور ہلکے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔(فیض القدیر للمناوی،ج05،ص 246،مصر)

   اسی میں ہے :” قال بعض الشافعية: فيه وما قبله لبس القلنسوة اللاطئة بالرأس والمرتفعة والمضربة وغيرها تحت العمامة وبلا عمامة كل ذلك ورد۔۔ وهي من السنة وحكمها أن تكون لاطئة لا مقبية“ترجمہ:بعض شافعیہ نے فرمایا کہ اس حدیث اور اس  سے پہلے والی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سر سے چمٹی ہوئی  ،اٹھی ہوئی اور کڑھائی والی اور اس کے علاوہ دیگر ٹوپیاں پہننا، عمامہ کے ساتھ ہو یا بغیر عمامہ، یہ سب احادیث میں وارد ہے اور ٹوپی بھی سنت میں سے ہے جس کا حکم یہ ہے کہ سر سے چمٹی ہوئی ہو، اٹھی ہوئی نہ ہو۔(فیض القدیر للمناوی،ج05،ص 247،مصر)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمامہ شریف باندھنے کے طریقے کے متعلق جزئیات:

   عمدة القاری میں ہے :”روا أبو الشيخ وغيره من رواية أبي عبد السلام عن ابن عمر رضي اللہ عنهما قال: قلت لابن عمر: كيف كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يعتم؟ قال: كان يدير كور العمامة على رأسه ويغرزها من ورائه ويرخي له ذؤابة بين كتفيه“ ترجمہ: ابو الشیخ اور ان کے علاوہ محدثین نے ابو عبد السلام سے روایت کیا ہے، وہ حضرت ابن عمر سے راوی ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں عرض کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کیسے باندھتے تھے؟توفرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر عمامہ کے پیچ گول گھمایا کرتے اور اس کو  پیچھے گھرس لیا کرتے اور اپنے کندھوں کے درمیان ایک شملہ چھوڑ دیتے۔(عمدۃ القاری، ج21،ص 308، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   دو نوں شملے پیچھے رکھنے کے متعلق صحیح مسلم میں حضرت حریث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”كأني أنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، وعليه عمامة سوداء، قد أرخى طرفيها بين كتفيه“ ترجمہ: گویاکہ میں اب بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب دیکھ رہا ہوں کہ آپ سیاہ عمامہ سجائے منبر پر تشریف فرما ہیں  اور اس عمامے کے دونوں شملے آپ کے کندھوں کے درمیان لٹک رہے ہیں۔(صحیح مسلم، ج02، ص990، دار إحياء التراث العربي- بيروت)

   ایک شملہ آگے اور ایک پیچھے رکھنے کے متعلق معجم اوسط میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :” أن النبي صلى الله عليه وسلم كان  إذا اعتم أرخى عمامته بين يديه ومن خلفه“ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو ایک شملہ آگے اور ایک شملہ پیچھے رکھتے تھے۔(المعجم الاوسط، ج01، ص110، دار الحرمين، القاهرة)

   عمامہ شریف  اونچا اور ابھرا ہوا نہ ہوتا تھا ،چنانچہ جامع الاصول میں جناب ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :”كانت عمِامةُ رسولِ الله- صلى الله عليه وسلم  بُطْحَة یعني لاطِئَة“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ شریف سر اقدس  سے چمٹا ہوا ہوتا تھا۔(جامع الاصول،ج10،ص 633، مكتبة الحلواني)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے :”عمامہ میں سنت یہ ہے کہ اس کی بندش گنبد نما ہو جس طرح فقیر باندھتا ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، ج22، ص186، رضا فاؤنڈیشن)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم