
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کسی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھائی؟ کیا یہ درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منا فقین کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول کا نماز جنازہ پڑھایا تھا کہ اس وقت تک منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بہت سے منافقین کے ایمان لانے کا باعث ہوگا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھایا، اورجس مصلحت کے لیے آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے نمازجنازہ پڑھائی تھی وہ بھی پوری ہوئی۔ اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو منافقین کی جنازہ کی نماز پڑھنےاور ان کے دفن میں شرکت سے منع کر دیا گیا، پھر کبھی سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی منافق کے جنازہ میں شرکت نہ فرمائی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ﴾
ترجمہ کنز الایمان: اور ان میں سے کسی کی میّت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بےشک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے۔ (پارہ 10، سورۃ التوبۃ، آیۃ 84)
تفسیر صراط ا لجنان میں ہے
﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا:
اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا۔﴾ اس آیت میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو منافقین کے جنازے کی نماز اور ان کے دفن میں شرکت کرنے سے منع فرمایا گیا اور اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافقوں کا سردار تھا، جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان صالح مخلص صحابی اور کثیرُ العبادت تھے، انہوں نے یہ خواہش کی کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم ان کے باپ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک عنایت فرمادیں اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن چونکہ اس وقت تک ممانعت نہیں ہوئی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا یہ عمل بہت سے منافقین کے ایمان لانے کا باعث ہوگا اس لئے حضور پُرنور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص بھی عنایت فرمائی اور جنازہ میں شرکت بھی کی۔ قمیص دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ جو بدر میں اسیر ہو کر آئے تھے تو عبداللہ بن اُبی نے اپنا کرتہ انہیں پہنایا تھا۔ حضورانور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو اس کا بدلہ دینا بھی منظور تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے قمیص بھی دیا اور جنازہ بھی پڑھایا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد پھر کبھی سرکارِ دو عالَم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے کسی منافق کے جنازہ میں شرکت نہ فرمائی اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی۔ چنانچہ جب منافقین نے دیکھا کہ ایسا شدید عداوت والا شخص جب سیّدِعالَم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے کرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور اس کے سچے رسول ہیں یہ دیکھ کرایک بڑی تعدادمسلمان ہوگئی۔۔۔ اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر کوئی کافر مر جائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کے مرنے پر نہ اس کے لئے دعا کرے اور نہ ہی ا س کی قبر پر کھڑا ہو۔ افسوس! فی زمانہ حال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک میں کوئی بڑا کافر مر جاتا ہے تو مسلمانوں کی سربراہی کے دعوے دار اس کے مرنے پر اس طرح اظہارِ افسوس کرتے ہیں جیسے اِ ن کا کوئی اپنا بڑا فوت ہوگیا ہو اور اگر اس کی قبر بنی ہو تو اس پر کھڑے ہو کر دعا ئیں مانگتے ہیں۔ یہ دعا بالکل حرام ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، ج 4، ص 199 ، 200، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3879
تاریخ اجراء: 03 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 31 مئی 2025 ء