
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ تھا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مولا علی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم کے علم مبارک کے کیا کہنے! اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار علوم عطا فرمائے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نےجنہیں بچپن میں پالا اور زندگی بھر صحبت سے نوازا، جو سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والوں میں سے ہیں، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر علم کا دروازہ قرار دیا اور اکابر صحابہ کرام علیھم الرضوان جن کے علم کی طرف رجوع فرماتے، ان کی شانِ علمی کے کیا کہنے، لیکن علم کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہونے کے باوجود، صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے نہیں، بلکہ اہلسنت کے نزدیک جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ تمام صحابہ و اہل بیت حتی کہ مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے بھی زیادہ علم والے تھے، اس پر کتبِ حدیث، شروحِ حدیث، عقائد و فقہ کی نصوص موجود ہیں، لہٰذا جنابِ مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کو حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ علم والا کہنا درست نہیں۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے”اعلم الصحابہ“ ہونے پرکتبِ حدیث و شروحِ حدیث کی نصوص:
(۱) جناب صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے اعلم ہونے کے متعلق صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں،
و اللفظ لمسلم: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلس على المنبرفقال: عبد خيره اللہ بين أن يؤتيه زهرة الدنيا و بين ما عنده فاختار ما عنده! فبكى أبو بكر و بكى، فقال: فديناك بآبائنا و أمهاتنا! قال: فكان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم هو المخير، و كان أبو بكر أعلمنا به
رسول الله صلی الله علیہ و سلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ایک بندے کو الله نے اختیار دیا کہ اسے دنیا کی ترو تازگی عطا کرے یا وہ نعمتیں جو اس کے پاس ہیں، تو اس بندے نے الله کے پاس کی نعمتیں اختیار کیں، یہ سُن کرحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خوب رونے لگے اور عرض کیا: آپ پر ہمارے ماں باپ فدا، راوی فرماتے ہیں: وہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم ہی تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق ہم میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔ (صحیح المسلم، ج 07، ص 108، رقم 2382، دار الطباعة العامرة، تركيا) (صحیح البخاری، ج 05، ص 04، رقم 3654، السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، مصر)
مذکورہ حدیث کے تحت علامہ عینی اور ابن ملقن علیہما الرحمۃ لكھتے ہیں،
و اللفظ لابن ملقن: و فی قول أبی سعيد: (و كان أبو بكر أعلمنا) هو لائح فی كونه أعلم الصحابة إذ لم ينكره أحد ممن حضر
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کے قول سے ظاہر ہے کہ حضرت ابو بکر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین میں سب سے زیادہ علم والے تھے، کیونکہ موجودین میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ج 05، ص 615، دار النوادر، دمشق) (عمد ۃ القاری، ج 04، ص 244، دار احیاء التراث العربی)
مذکورہ حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”معلوم ہوا کہ جناب صدیق اکبر تمام صحابہ اور اہلِ بیت سے بڑے عالم بہت ذکی و فہیم اور سب سے زیادہ مزاج شناس رسول تھے رضی الله عنہ، اسی لیے حضور انور نے اپنے مصلے پر آپ کو کھڑا کیا، امام وہ ہی بنایا جاتا ہے جو سب سے بڑا عالم ہو، سارے صحابہ میں آپ سب سے بڑے عالم تھے۔“ (مرآۃ المناجیح، ج 08، ص 285، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
(۲) ”اعلم“ امامت کروانے کا اولین مستحق ہے، اورصحیحین میں روایت موجود ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض کے دوران جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کا حکم ارشاد فرمایا، جس سے آپ رضی اللہ عنہ کا ’’اعلم الصحابہ‘‘ ہونا معلوم ہوتا ہے، چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں،
و اللفظ للبخاری: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قال فی مرضه: مروا أبا بكر يصلی بالناس
بےشک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض میں ارشاد فرمایا: ابوبکر کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دو۔(صحیح البخاری، ج 9، ص 98، رقم 7303، السلطانيہ، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر) (صحیح مسلم، ج 02، ص 23، رقم 418، دار الطباعة العامرة، تركيا)
(۳) ایک دوسری روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ آلہ و سلم نے یہاں تک فرمایا: جس قوم میں ابو بکر موجود ہو، اس کی امامت کوئی اور نہ کروائے، ملاحظہ ہو:
لا ينبغی لقوم فيهم أبو بكرأن يؤمهم غيره
جس قوم میں ابو بکر موجود ہو،اس کی امامت کوئی اور نہ کروائے۔ (سنن ترمذی، ج 06، ص51، رقم 3673، دار الغرب الإسلامی، بيروت)
حدیثِ صحیحین کے تحت ابو الولید باجی، علامہ قسطلانی اور ابو بکر ابن العربی علیھم الرحمۃ لکھتے ہیں،
و اللفظ للباجی: أمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم أبا بكر أن يصلی للناس لأنه كان أفضل الصحابة و أعلمهم
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر کو لوگوں کی امامت کا حکم اس وجہ سے فرمایا کہ آپ تمام صحابہ میں سب سے افضل اور اعلم تھے۔ (المنتقی شرح الموطا، ج 01، ص 305، مطبعة السعادة) (ارشاد الساری، ج 02، ص 43، المطبعة الكبرى الأميرية، مصر) (المسالک فی شرح الموطا، ج 03، ص 208، دَار الغَرب الإسلامی)
علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
”مروا أبا بكر فليصل“ و كان ثم من هو أقرأ منه لا أعلم دليل الأول قوله عليه السلام: ”أقرؤكم أبی“، و دليل الثانی قول أبی سعيد: كان أبو بكر أعلمنا
حضرت ”ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دو“ کہ صحابہ میں سب سے بڑے قاری توموجود تھے، لیکن حضرت ابو بکر سے بڑھ کر کوئی عالم نہ تھا، پہلی بات کی دلیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ تم میں سب سے بڑے قاری حضرت اُبَی ہیں، اور دوسری بات کی دلیل حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ ابو بکر ہم میں سب سے زیادہ علم والے ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 03، ص 863، دار الفکر، بیروت)
صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے”اعلم الصحابہ“ ہونے پرکتب ِعقائد کی نصوص:
روافض حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ’’اعلم الصحابہ‘‘ قرار دیتے ہیں اوراس سے آپ کے خلیفہ بلافصل ہونے پر استدلال کرتے ہیں، اس کا رد کرتے ہوئے محقق جلال الدین دوانی لکھتے ہیں:
لانسلم أن عليا أعلم الصحابة لأن الأمة اجتمعت على كل من أبی بكر و عمر و عثمان بالتقديم. و المجمع على تقديمه مجمع على أنه أعلم ممن بعده۔۔۔ أن أبا بكر قدم فی الصلاة حياة النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم على جميع الآل و الصحب و صلوا وراءه. والصلاة بنص جميع الفقهاء الأعلم مستحق للتقديم فيها. و قد قدم، فثبت أنه الأعلم
ہمیں تسلیم نہیں کہ مولا علی کرم اللہ وجھہ صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے تھے،کیونکہ حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالی عنھم کے مقدم ہونے پر اتفاق ہے، اور ان ہستیوں کی تقدیم پر اتفاق ان کے اپنے مابعد یعنی مولا علی سے زیادہ علم والے ہونے پر اتفاق ہے۔۔۔ بے شک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ آلہ و سلم کی مبارک زندگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو نماز پڑھانے کے لئے تمام اہل بیت اور اصحاب پر مقدم کیا گیا، اور ان تمام ہستیوں نے جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی، اور تمام فقہاء کی صراحت کے مطابق سب سے زیادہ علم والا شخص امامت کے لیے مقدم کیے جانے کا مستحق ہے، اور جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو ہی مقدم کیا گیا، جس سے آپ کا سب سے زیادہ علم والا ہونا ثابت ہوا۔ (الحجج الباهرة فی إفحام الطائفة الكافرة الفاجرة، ص 180، 181، مكتبة الإمام البخاری)
علامہ شمس الدين ذھبی لکھتے ہیں:
و لا نسلم أن عليا كان أحفظهم للشرع بل كان أبوبكر و عمر أعلم منه
مولا علی کرم اللہ وجھہ شریعت کے سب سے بڑے حافظ تھے، یہ ہمیں تسلیم نہیں، بلکہ جناب صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما ان سے زیادہ علم والے تھے۔ (المنتقى من منهاج الاعتدال في نقض كلام أهل الرفض و الاعتزال، ص 432، 433، مطبوعہ ریاض)
علامہ مجد الدين فيروز آبادی بھی اس حوالے سے رقمطراز ہیں:
ادعى أن عليا أفضل الخلق بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم. و ذكر على هذا دلائل. منها أنه كان أكثرهم علما۔ قلنا: هذا كذب صريح بحت لان أبا بكر أعلم
ان کا دعوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مخلوق میں سب سے افضل حضرت علی کرم اللہ وجھہ ہیں، اور اس پر انہوں سے کئی دلائل دیئے، ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت علی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔ہم نے جواباً کہا: یہ صریح سیاہ جھوٹ ہے، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سب سے زیادہ علم والے تھے۔ (ملتقطا من الرد على الرافضة أو القضاب المشتهر على رقاب ابن المطهر، ص 35، 39، مكتبة الإمام البخاري للنشر و التوزيع، مصر)
سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی نص:
علم مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سیدی اعلی حضرت نے علم صدیق، عمر اور علی رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کو ترتیب وار بیان فرمایا، جس سے حضرت صدیق اکبر کا مولا علی سے اعلم ہونا ثابت ہوتا ہے، فتاوی رضویہ میں ہے: ”امیر المومنین علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
لو شئت لاوقرت من تفسیر الفاتحۃ سبعین بعیرا،
میں چاہوں تو سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹ بھروادوں۔ ایک اونٹ کَے من بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر من میں کَے ہزار اجزاء حساب سے تقریباً پچیس لاکھ جزآتے ہیں۔ یہ فقط سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے، پھر باقی کلام عظیم کی کیا گنتی۔ پھریہ علم، علمِ علی ہے۔ اس کے بعد علمِ عمر، اس کے بعد علمِ صدیق کی باری ہے
ذھب عمر بہ تسعۃ اعشار العلم
عمر علم کے نوحصے لے گئے۔
کان ابوبکر اعلمنا
ہم سب میں زیادہ علم ابوبکر کو تھا، پھر علم نبی تو علم نبی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 22، ص 619، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0465
تاریخ اجراء: 24 جمادی الاولی 1446ھ / 27 نومبر2024ء