گناہ کبیرہ کرنے والا جنت میں جائے گا؟

کیا بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب شخص جنت میں جائے گا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

جو شخص مسلمان ہو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور اس نے دنیا میں بڑے بڑے گناہ کیے ہوں، زنا بھی کیا ہو اور جھوٹ بھی بولا ہو، نماز بھی نہ پڑھتا ہو تو کیا وہ جنت میں جائے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

کبیرہ گناہوں میں ڈوبا ہوا مسلمان اگر ایمان پر مرے، تو وہ جنت میں ضرورجائے گا، اب اللہ تعالی کی مشیّت کے تحت ہے کہ اللہ تعالی چاہے تو بلا سزا معاف فرما دے، چاہے تو سزا دے کر بالآخر جنت میں داخل فرما دے۔ تاہم! یہ یاد رہے کہ گناہوں کی نحوست کی وجہ سے سوءِ خاتمہ یعنی کفر پر مرنے کا خطرہ رہتا ہے، اگر کسی شخص کے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے اس کا ایمان سلب کرلیا گیا، اوروہ کفر پر ہی مرگیا (العیاذ باللہ) تو وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا۔

لہذا زندگی میں گناہوں سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرنی چاہئے، اور خصوصاً نماز چھوڑنا تو نہایت سنگین گناہ ہے، لہذا پہلے والی قضا نمازیں جلد پڑھنے کے ساتھ ساتھ، ان میں تاخیراور باقی گناہوں (زنا، جھوٹ وغیرہ) سے بھی فوراً سے پیش تر توبہ کی جائے، کہ گناہ برے خاتمےکا سبب بن سکتے ہیں، اور اصل اعتبار خاتمے کا ہی ہے، اس لیے توبہ و اطاعت ہی نجات کا راستہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔ اس کے تحت خزائن العرفان میں ہے "معنی یہ ہیں کہ جو کفر پر مَرے اس کی بخشش نہیں اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے اور جس نے کفر نہ کیا ہو وہ خواہ کتنا ہی گنہگار مرتکبِ کبائر ہو اور بے توبہ بھی مر جائے تو اُس کے لئے خلود نہیں اِس کی مغفرت اللہ کی مشیّت میں ہے چاہے معاف فرمائے یا اُس کے گناہوں پر عذاب کرے پھر اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے۔" (سورۃ النسآء، پارہ 05، آیت 48)

صحیح بخاری میں ہے

عن أبي ذر رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى اللہ عليه و سلم: "أتاني آت من ربي، فأخبرني - أو قال: بشرني - أنه: من مات من أمتي لا يشرك باللہ شيئا دخل الجنة" قلت: و إن زنى و إن سرق؟ قال: «و إن زنى و إن سرق»

ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے رب کی طرف سے آنے والا میرے پاس آیا تو اس نے مجھے خبر دی، یا فرمایا: مجھے خوشخبری دی کہ میری امت سے جو بھی اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا، میں نے عرض کیا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو، اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اگرچہ اس نے چوری کی ہو۔ (صحیح بخاری،رقم الحدیث 1237، ج 2، ص 71، دار طوق النجاۃ)

شرح العقائد النسفیہ میں ہے

(و الکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الایمان) لبقاء التصدیق الذی ھو حقیقۃ الایمان

ترجمہ: کبیرہ گناہ بندہ مومن کو ایمان سے خارج نہیں کرتا کیونکہ (اس مومن میں) تصدیقِ قلب باقی ہے جو کہ ایمان کی حقیقت ہے۔ (شرح العقائد النسفیہ، صفحہ 254، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

شرح العقائد النسفیہ میں ہے

اجماع الامۃ من عصر النبی علیہ السلام الی یومنا ھذا بالصلاۃ علی من مات من اہل القبلۃ من غیر توبۃ و الدعاء و الاستغفار لھم مع العلم بارتکابھم الکبائر بعد الاتفاق علی ان ذلک لا یجوز لغیر المؤمن

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لے کر آج تک امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اہل قبلہ میں سے جو شخص بغیر توبہ کے مر گیا تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لیے دعا و استغفار بھی کی جائے گی باوجود اس کے کہ اس کا کبیرہ کا مرتکب ہونا معلوم ہے حالانکہ اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ یہ غیر مومن کے لیے جائز نہیں ہے۔ (شرح العقائد النسفیہ، صفحہ 257، 258، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

گناہ، کفر تک جانے کاسبب بن سکتے ہیں، اس حوالے سے الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے

المعاصي بريد الكفر أي رسوله باعتبار أنها إذا أورثت القلب هذا السواد وعمته لم يبق يقبل خيرا قط، فحينئذ يقسو و يخرج منه كل رحمة ورأفة وخوف فيرتكب ما أراد ويفعل ما أحب، ويتخذ الشيطان وليا من دون اللہ ويضله و يغويه و يعده و يمنيه، و لا يرضى منه بدون الكفر ما وجد له إليه سبيلا

ترجمہ: گناہ کفر کے قاصد ہیں یعنی اس اعتبار سے کہ یہ دل میں سیاہی پیدا کرکے اسے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ پھر وہ کبھی کسی بھلائی کو قبول نہیں کرتا، اس وقت وہ سخت ہوجاتا ہے اور اس سے ہر رحمت ومہربانی اور خوف نکل جاتا ہے، پھر وہ شخص جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور جسے پسند کرتا ہے اس پر عمل کرتا ہے، نیز اللہ عزوجل کے مقابلہ میں شیطان کو اپناولی بنا لیتا ہے تو وہ شیطان اسے گمراہ کرتا، ورغلاتا، جھوٹی اُمیدیں دلاتا ہےاور جس قدر ممکن ہو کفر سے کم کسی بات پر اس سے راضی نہیں ہوتا۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، جلد1، صفحہ 21، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4149

تاریخ اجراء: 28 صفر المظفر 1447ھ / 23 اگست 2025ء