امام مصلے پر دیر سے آئے تو مقتدیوں کا غیبت کرنا

امام کو مصلے پر آتے ہوئے تاخیر ہو جائے تو مقتدیوں کا امام کی غیبتیں کرنا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے نمازکے لیے کھڑے ہو جانے کے بعد امام صاحب کو کسی وجہ سے مصلے پر آنے میں تاخیر ہو جاتی ہے تو کچھ مقتدی ان کی غیبتیں شروع کر دیتے ہیں، ایسا کرنا کیسا؟ نیز کیا اس امام کے پیچھے ان کی نماز ہو جائے گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یہ بالکل ناجائز و حرام ہے، کیونکہ سوال میں ذکر کردہ وجہ یعنی کبھی کبھار امام صاحب سے کسی وجہ سے مصلی پر پہنچنے میں تاخیر ہوجانا، یہ کوئی ایسی شرعی وجہ نہیں کہ جس سے کسی مسلمان بالخصوص امام مسجد کی غیبت کرنا جائز ہوجائے، لہٰذا ایسے لوگ سخت گناہ گار ہیں، ان کو بارگاہ الہی میں سچی توبہ کرنی چاہئے اور اگر امام صاحب تک اس غیبت کی اطلاع پہنچ گئی ہو تو ان سے بھی معافی مانگنا ہوگی، البتہ ان مقتدیوں کی نماز اس امام کے پیچھے ہوجائے گی جبکہ اس امام میں نماز سے مانع کوئی شرعی خرابی وغیرہ نہ ہو۔

باقی امام کو بھی چاہئے کہ اقامت کے بعد جائے نماز پر آنے میں اتنی تاخیر نہ کرےجس سے نمازیوں کو تشویش ہو اور وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنا شروع کردیں، کبھی کبھار بوجہ عذر ایسا ہونا سمجھ میں آتا ہے، لیکن مستقل نمازیوں کو تشویش میں مبتلا کرنا درست عمل نہیں، لہٰذا امام حی علی الفلاح کے وقت مصلے پر پہنچ جائے، اس کا التزام کرناچاہیے۔

غیبت کی مذمت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے

(وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَّأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَحِيْمٌ)

 ترجمہ کنز الایمان: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (القرآن الکریم، پارہ26، سورۃ الحجرات، آیت 12)

جوہرہ نیرہ میں ہے ”و من الكبائر۔ ۔ ۔ الغيبة“ ترجمہ: غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد2، صفحہ231، المطبعة الخيرية)

غیبت کے گناہ سے توبہ کرنے کے متعلق درِ مختار میں ہے

”إذا لم تبلغه يكفيه الندم وإلا شرط بيان كل ما اغتابه به“

 یعنی: جس کی غیبت کی ہو اسے اگر خبر نہ پہنچی ہو تو اس صورت میں فقط ندامت ہی کافی ہے ورنہ شرط ہے کہ ہر اس بات کو بیان کرے کہ جس کے ساتھ اِس نے اُس کی غیبت کی ہے۔

(وإلا شرط بيان كل ما اغتابه به) کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:

”أي مع الاستغفار والتوبة والمراد أن يبين له ذلك ويعتذر إليه ليسمح عنه بأن يبالغ في الثناء عليه والتودد إليه ويلازم ذلك حتى يطيب قلبه“

 ترجمہ: یعنی استغفار اور توبہ کے ساتھ، اور اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے اس کے سامنے یہ سب بیان کرے اور اس غیبت کرنے پر اس سے معذرت کرے تاکہ وہ اس غیبت سے درگزر کرے، اس طور پر کہ اس کی تعریف و ثناء اور اس سے اظہارمحبت میں مبالغہ کرتا رہے یہاں تک کہ اس کا دل خوش ہوجائے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، جلد9، صفحہ677، مطبوعہ: کوئٹہ)

بہارِ شریعت میں ہے ”جس کی غیبت کی اگر اس کو اس کی خبر ہوگئی تو اس سے معافی مانگنی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے سامنے یہ کہے کہ میں نے تمھاری اس اس طرح غیبت یا برائی کی تم معاف کردو اس سے معاف کرائے اور توبہ کرے تب اس سے برئ الذمہ ہوگا اور اگر اس کو خبر نہ ہوئی ہو تو توبہ اور ندامت کافی ہے۔ “ (بہار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ538، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ امام کی برائی کرنے والے مقتدی کے بارے میں فرماتے ہیں: ”اگر (امام) فاسق معلن نہیں ہے، تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار، مگر اس کی نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی۔ “ (فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ272، شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4260

تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1447 ھ/23ستمبر 2520 ء