گنہگار دوسروں کو گناہوں سے روک سکتا ہے؟

گناہ گارکا دوسروں کو گناہوں سے روکنا

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا جو خود گناہ میں ملوث ہو، وہ دوسروں کو گناہوں سے نہیں روک سکتا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ہر انسان پرلاز م ہے کہ وہ خود کو بھی گناہوں سے روکے اور دوسروں کو بھی اپنی طاقت کے مطابقت گناہوں سے روکے۔ پھر اگر کوئی خود گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو گناہوں سے روکنے والے حکم پر عمل نہیں کر رہا تو اس کی وجہ سے دوسرا حکم یعنی دوسروں کو گناہوں سے روکنے والا اس سے ساقط نہیں ہوگا، وہ بدستور اس پر لازم ہی رہے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر اپنے آپ کو بھی گناہ سے روکنے کا حکم باقی رہے گا، لہذا جو گناہ میں ملوث ہے، وہ خود کوبھی گناہ سے بچائے اور دوسروں کو بھی اپنی طاقت کے مطابق، موقع و محل کی مناسبت سے حکمت کے ساتھ گناہ سے روکے۔

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ؕ               اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ)

ترجمہ کنز الایمان: کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔ (القرآن، سورۃ البقرۃ، پارہ1، آیت: 44)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ کے تحت تفسیر بیضاوی میں ہے

”والمراد بها حث الواعظ على تزكية النفس والإقبال عليها بالتكميل لتقوم فيقيم غيره، لا منع الفاسق عن الوعظ فإن الإخلال بأحد الأمرين المأمور بهما لا يوجب الإخلال بالآخر“

ترجمہ: اس سے مراد واعظ کو تزکیہ نفس پر ابھارنا ہےاور یہ کہ وہ اپنی تکمیل و اصلاح میں لگ جائے تاکہ خود درست ہو کر دوسروں کی اصلاح کرے، نہ کہ فاسق کو وعظ سے منع کرنا مقصود ہے کیونکہ دو مامور حکموں میں سے کسی ایک میں کوتاہی کرنا دوسرے کو ترک کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ (تفسیر البیضاوی، جلد1، صفحہ77، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ معمولی فساد اس وقت بہت بڑے فتنے اور تباہی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جب اس کا ارتکاب کرنے والے خود وہ لوگ ہوں جو دوسروں کو تو بھلائی کا حکم دیتے ہوں لیکن جب ان کے عمل سے پردہ اُٹھے تو معلوم ہو کہ گناہوں کے سب سے بڑے مریض یہی ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قول و فعل کا تضاد اور خلوت و جلوت کا فرق دنیا و آخرت دونوں لئے بہت نقصان دہ ہے، دنیا میں تو یہ اس قدر نقصان دہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی کے متعلق یہ تضاد ثابت ہوجائے تو لوگ زندگی بھر اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتے بلکہ ایسوں کے عمل کو دیکھ کر نجانے کتنے لوگ ہمیشہ کیلئے دین ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں ۔۔۔ یاد رہے کہ اس آیت کی مراد وعظ و نصیحت کرنے والوں کو تقویٰ و پرہیزگاری پر ابھارنا ہے، بے عمل کو وعظ سے منع کرنا مقصود نہیں، یعنی یہ فرمایا ہے کہ جب دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہو تو خود بھی عمل کرو، یہ نہیں فرمایا کہ جب عمل نہیں کرتے تو وعظ و نصیحت کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ عمل کرنا ایک واجب ہے اور دوسروں کو برائی سے روکنا دوسرا واجب ہے۔ اگر ایک واجب پر عمل نہیں تو دوسرے سے کیوں رُکا جائے۔“ (صرط الجنان، جلد1، صفحہ128، 129، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4370

تاریخ اجراء: 01جمادی الاول1447 ھ/24اکتوبر2025 ء