انٹرنیٹ پر غیر محرم سے دوستی کرنا کیسا؟

انٹرنیٹ پر غیر محارم سے دوستی کرنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

آج کل لوگ نیٹ پر دوستی کرتے ہیں جو سالوں تک چلتی ہے پھر اسے محبت کا نام دے دیتے ہیں تو کیا اس طرح محبت کرنا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

غیر محرموں کی ایسی دوستیاں اور محبتیں یقینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہیں اور کئی گناہوں کا مجموعہ ہیں(مثلا بلا ضرورت بے تکلفی سے، مائل کرنے والے انداز میں بات چیت کرنا، یا بے حیائی پر مبنی باتیں کرنا، پھر بات بڑھتی ہے تو میسج سے کال، کال سے ویڈیو کال پر آتے ہیں اور بدنگاہیوں و گناہوں کا نیا دروازہ کھل جاتا ہے پھر بات میل ملاپ تک پہنچتی ہے، جبکہ عورت کا بے پردگی کے ساتھ غیرمحرم کےسامنے آنا، میل ملاپ، تنہائی میں ملاقات کرنا، سب ناجائز و گناہ ہے نیز مائل کرنے کے لئے کچھ دینا، لینا یہ رشوت ہے اور رشوت سخت ناجائز اور لعنتی کام ہے)، جن سے بچنا شرعا لازم ہے، ایسی دوستیوں کے نتیجے میں گھر سے بھاگنے والے قبیح کام بھی ہوتے ہیں اور زنا جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب بھی ہوتا ہے اور پھر اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر قتل یا خودکشی تک کے معاملات بھی ہوتے ہیں اور دونوں طرف کی عزتیں بھی نیلام ہوتی ہیں۔

پردے کے متعلق قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے (قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُم ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ) ترجمہ کنز الایمان: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے۔ بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے۔ اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں، مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ (القرآن، پارہ18، سورۃ النور، آیت:30،31)

مردوں کو اجنبی عورتوں کے پاس جانے کی ممانعت کے متعلق حدیث پاک میں ہے

”عن عقبة بن عامر، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال :ایاکم والدخول علی النساء“

ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔  (شعب الايمان، جلد7، صفحہ309، حدیث:5054، مطبوعہ: الرياض)

مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنےکے متعلق علامہ بُرہان الدین مَرْغِینانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

”و لا یجوز ان ینظر الرجل الی الاجنبیۃ“

ترجمہ : مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔  (الھدایۃ، جلد4، صفحہ368، دار احياء التراث العربي، بیروت)

امام ابن حجر ہیتمی الزواجر عن اقتراف الکبائر میں نقل فرماتے ہیں :

’’أخرج الشيخان وغيرهما عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «كتب على ابن آدم نصيبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة؛ العينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى ويصدق ذلك الفرج أو يكذبه» .۔۔۔۔والطبراني بسند صحيح: «لأن يطعن في رأس أحدكم بمخيط» - أي بنحو إبرة أو مسلة وهو بكسر أوله وفتح ثالثه - «من حديد خير له من أن يمس امرأة لا تحل له» . والطبراني: «إياكم والخلوة بالنساء، والذي نفسي بيده ما خلا رجل بامرأة إلا دخل الشيطان بينهما، ولأن يزحم رجلا خنزير متلطخ بطين أو حمأة - أي طين أسود منتن - خير له من أن يزحم منكبه امرأة لا تحل له». والطبراني: «لتغضن أبصاركم ولتحفظن فروجكم أو ليكشفن الله وجوهكم»‘‘

ترجمہ:امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ابنِ آدم پر زنا کا جو حصہ لکھ دیا گیا ہے وہ اسے ضرور پائے گا، آنکھوں کا زنا (غیر محرم کو)دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (حرام)سننا ہے، زبان کا زنا بولنا (یعنی گناہوں بھری گفتگو کرنا)ہے، ہاتھوں کا زنا (حرام کو)پکڑنا ہے، پاؤں کا زنا (حرام کی طرف)چلنا ہے اور دل زنا کی خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔"

طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہیں۔"

اور طبرانی نے روایت کیا کہ: "عورتوں کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے بچو! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جو شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے تو ان کے درمیان شیطان آجاتا ہے اور کسی شخص کو مٹی اور سیاہ بدبودار کیچڑ میں لت پت خنزیر روندے تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت کے کندھوں کو چھوئیں جواس کے لئے حلال نہیں۔"

اور طبرانی نے روایت کیا کہ: "تم یا تو اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے یاپھر اللہ عزوجل تمہاری شکلیں بگاڑ دے گا۔‘‘ (العیاذباللہ تعالی) (الزواجر عن اقتراف الكبائر، جلد2، صفحہ3، دار الفكر، بیروت)

عورت کے بے پردگی کرنے کا حکم بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو، جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز، تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقاً حرام ہے، خواہ وہ پیر ہو یا عالم یا عامی جوان ہو، یا بوڑھا۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد22، صفحہ239، 240، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

عورت کو مرد کے ساتھ بقدرِ ضرورت گفتگو کی اجازت ہے، نہ کہ بے تکلفی کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے کی، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

”نجيز الكلام مع النّساء للأجانب ومحاورتهنّ عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ ولا تمطيطها ولا تليینها وتقطيعها لما في ذلك من استمالةالرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم ومن ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ“

 ترجمہ: ہم وقتِ ضرورت اجنبی عورتوں سے کلام اور بات چیت کو جائز قرار دیتے ہیں، البتہ یہ جائز نہیں قرار دیتے کہ وہ اپنی آوازیں بلند کریں، گفتگو کو بڑھائیں، نرم لہجہ رکھیں یا مبالغہ کریں، کیونکہ اس طرح تو مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کوابھارنا ہے، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔  (رد المحتارعلی الدرالمختار، جلد2، صفحہ97، مطبوعہ: کوئٹہ)

رشوت کے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

”لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش، یعنی الذی یمشی بینھما“

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے، رشوت لینے والے اوران دونوں کے درمیان معاملہ کروانے والے پرلعنت فرمائی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد4، صفحہ444، مکتبۃ الرشد، الریاض )

المعجم الصغیر میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”الراشی والمرتشی فی النار“ ترجمہ:رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخی ہیں۔ (المعجم الصغیر، باب الالف، من اسمہ احمد، جلد1، صفحہ57، المکتب الاسلامی، دار عمار، بیروت)

 رشوت کی تعریف کرتے ہوئے علامہ شامی رحمۃاللہ علیہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں

”الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد “

 ترجمہ: رشوت (راء کے کسرہ کے ساتھ) وہ ہے جسے کوئی شخص حاکم وغیرہ کواس لئے دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یادینے والے کے مقصود پر حاکم کو ابھارے۔ (ردالمحتار، کتاب القضاء، مطلب فی الکلام علی الرشوۃ والہدیۃ، جلد8، صفحہ42، کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4325

تاریخ اجراء: 20ربیع الثانی1447 ھ/14اکتوبر2025 ء