دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا اسلام میں محبت حرام ہے، اگر ہاں تو لوگ کہتے ہیں کہ محبت تو بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہ کو بھی آقاصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوئی تھی اور بی بی زلیخا کو بھی حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی تھی، تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر ایک شخص کو کسی خاتون سے محبت ہو جائے اور وہ کوئی خلاف شرع کام نہ کرے اور عبادت بھی نہ چھوڑے، کوئی حرام کام نہ کرے اور دل میں اس کے لئے جذبات ہوں، اور وہ شخص بالکل نڈھال ہو گیا ہو، اسے زندگی گزارنا دشوار ہو جائے۔ تو اللہ عزوجل کے حکم کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہلتا، تو اس کے ارادے کے بغیر کسی انسان کا خیال کسی دوسرے شخص کے دل میں کیسے آ سکتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں اس چیز کو غلط کہا جاتا ہے، کیا واقعی یہ غلط ہے؟ اس بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کردیں کہ اس کی شرعی حدود کیا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اسلام میں محبت بذاتِ خود نہ حرام ہے اور نہ مذموم، کیونکہ در اصل یہ ایک فطری و طبعی جذبہ ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں مذمت اور ممانعت کا حکم ہے، تو وہاں محبت کے خلافِ شرع اثرات اور نتائج کے اعتبار سے ہے۔ اگر اجنبی مرد عورت کے درمیان بِغیر کسی غیر شرعی حرکت کے اتفاقیہ طور پر محبت ہوجائے اور اس کے نتیجے میں کوئی خلافِ شرع عمل نہ ہو، نہ عبادت میں غفلت ہو، نہ کسی قسم کے حرام تعلقات قائم ہوں، تو ایسی محبت قابلِ مؤاخذہ نہیں کہ اِس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں، البتہ قصداً ایسے حالات پیدا کرنا، یا ایسے اعمال اختیار کرنا، جن سے ناجائز محبت پروان چڑھے، شرعاً ہرگز جائز نہیں، جیسا کہ آج کے دور میں عموماً اسی طرح کی غیر شرعی حرکات و اسباب سے جنم لینے والی محبت و عشقِ مجازی دیکھنے کو ملتا ہے، جو کہ بے شمار گناہوں کا ذریعہ اور طرح طرح کی برائیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ جیسے: اجنبی مرد و عورت کا آزادانہ رابطہ رکھنا، بے تکلفی و ملاقاتیں، فون پر بات چیت، فحش گفتگو، تنہائی میں جمع ہونا وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب امور اسلام میں سخت ناجائز و حرام ہیں اور شریعت اسلامیہ اس کی سخت مذمت کرتی ہے۔
حضرت زلیخا رضی اللہ عنہا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کو آج کے دور کی ناجائز اور غیر شرعی محبت کے جواز کے طور پر پیش کرنا سخت غلطی ہے۔ اس لیے کہ ابتدا میں جب حضرت زلیخا کے دل میں حضرت یوسف علیہ السلام کی محبت پیدا ہوئی، تو انہوں نے غلط راستے کی طرف قدم بڑھایا، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے کامل تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ گناہ سے بچاؤ کیا اور قرآن نے ان کی اسی پاکدامنی کو سراہا۔بعد ازاں حضرت زلیخا رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے اس ناپسندیدہ ارادے سے رجوع کرتے ہوئے، توبہ کی اور قرآن نے ان کی توبہ کا ذکر کیا۔اس پورے واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مجازی عشق اور اس کے غیر شرعی نتائج کی مذمت کی گئی ہے، جبکہ پاکیزگی، تقویٰ اور عصمت کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے۔ اسی طرح ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نبی کریم ﷺ سے محبت بہت ہی پاکیزہ ہے اور آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق، صدق و امانت اور عظیم سیرت کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر اس محبت کو نکاح کے پاکیزہ رشتے کے ذریعے دوام ملا۔ حدیث شریف میں ہے: "دو محبّت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بہتر کوئی چیز نہیں۔" اس سے واضح ہوتا ہے کہ فطری محبت اگر نکاح کے دائرے میں آجائے، تو یہ باعثِ برکت اور موجبِ رضائے الٰہی ہے۔
پردے کے بارے میں سوال جواب نامی کتاب میں ایک سوال ہوا کہ ’’جو نہ چاہتے ہوئے بھی بِغیر کسی غیر شرعی حرکت کے اتفاقیہ عشقِ مجازی میں مبتلا ہو جائے کیا وہ گنہگار ہے؟ اور اب مریضِ عشق کو کیا کرنا چاہئے؟“
اس کے جواب میں امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ نے ارشاد فرمایا: ’’(بغیر کسی غیر شرعی حرکت کے اتفاقیہ عشق مجازی گناہ) نہیں۔ کیونکہ اِس میں اُس کا اختیار نہیں۔ (اور اب ایسے کو) صبر کر کے اجرکمانا چاہئے۔“ (پردے کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 318، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی اور حضرت زلیخا کے بُرے ارادے سے توبہ کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍؕ- قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْــٴٰـنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ٘- اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(51)
ترجمہ کنز العرفان: بادشاہ نے کہا: اے عورتو! تمہارا کیا حال تھا جب تم نے یوسف کا دل لبھانا چاہا۔ انہوں نے کہا: سُبْحَانَ اللہ ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز کی عورت نے کہا: اب اصل بات کھل گئی۔ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ سچے ہیں۔ (پارہ 12، سورۃ یوسف: 51)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ’’جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس سے پیام لے کر بادشاہ کی خدمت میں پہنچا تو بادشاہ نے پیام سن کر ہاتھ کاٹ لینے والی عورتوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ عزیز مصرکی عورت کو بھی بلایا، پھر بادشاہ نے ان سے کہا: اے عورتو! اپنے صحیح حالات مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا تھا ، جب تم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دل لبھانا چاہا ،کیا تم نے ان کی جانب سے اپنی طرف کوئی میلان پایا۔ عورتوں نے جواب دیا: سُبْحَانَ اللہ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز مصرکی عورت یعنی زلیخانے کہا: اب اصل بات ظاہر ہو گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ اپنی بات میں سچے ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۴)
یاد رہے کہ اس آیت میں حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی توبہ کا اعلان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا، کیونکہ انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور قصور کا اقرار توبہ ہے لہٰذا اب حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو بُرے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے، کیونکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحابیہ اور ان کی مقدس بیوی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے قصوروں کا ذکر فرما کر ان پر غضب ظاہر نہ فرمایا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھیں اور توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے گناہ کی طرح ہوتا ہے۔“ (تفسیر صراط الجنان،جلد4، صفحہ 574، 575،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
دو محبت کرنے والوں کےنکاح کرنے سے متعلق سنن ابن ماجہ اور حدیث کی دیگر کتابوں میں ہے:
عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لم نر – (يُر) - للمتحابين مثل النكاح
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی یا نہ دیکھی گئی۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 1،صفحہ 593، رقم الحدیث: 1847، دار إحياء الكتب العربية)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
أي: لم تر أيها السامع ما تزيد به المحبة للمتحابين (مثل النكاح) أي: إذا جرى بين المتحابين وصلة خارجية ازدادت الوصلة الباطنية، و قيل: إذا نظر إلى الأجنبية وأخذت بمجامع قلبه فنكاحها يورث مزيد المحبة، و سفاحها البغض و العداوة
یعنی: اے سننے والے! نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی جو دو محبّت کرنے والوں کے درمیان محبت کو بڑھادے یعنی جب دو محبّت کرنے والوں کے درمیان بیرونی تعلق (نکاح) قائم ہو جائے ،تو باطنی تعلق (محبت) اور زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ اور کہا گیا ہے: اگر کوئی شخص اجنبی عورت کو دیکھے اور وہ اس کے دل کو اپنی گرفت میں لے لے، تو اس سے نکاح کرنا محبّت میں اور زیادہ اضافہ کرتا ہے،اور زنا کرنا بغض و عداوت کو جنم دیتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 5، صفحہ 2048،دار الفكر، بيروت)
نوٹ: یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اپنے ناجائز یا مشکوک یا قبیح اعمال کےلئے مقدس ہستیوں کا حوالہ دینا نہایت سنگین ہے، بلکہ کئی بار کفر تک پہنچا دیتا ہے، اس لئے اس سے بچنا لازم ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-884
تاریخ اجراء: 22ربیع الاول1447ھ/ 16ستمبر 2025ء