شکاری پرندے کے کھانے کے لیے زندہ پرندے ڈالنا کیسا ؟

شکاری پرندہ پالا ہو تو کھانے کے لیے اس کے سامنے زندہ پرندے ڈالنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے گھر میں  ایک باز پالا ہوا ہے اور باز چونکہ فطرتاً خود شکار کرکے کھانے والا پرندہ ہے، تواس لیے زید اس کے پنجرے میں زندہ کبوتر، تیتر یا بٹیر وغیرہ پرندے دیتا ہے، تاکہ وہ خود شکار کرے اور کھائے، تو شرعی رہنمائی فرمائیں کہ زید کا ایسا کرنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں زید کا باز کے پنجرے میں زندہ پرندے ڈالنا صریح ظلم، ناجائز و گناہ ہے، کہ اس میں ان پرندوں کو بلاوجہِ شرعی تکلیف دینا ہے، جبکہ ہمارا دین ِ اسلام جانوروں پر رحم کرنے کی بہت تاکید فرماتا ہے اور انہیں بلاوجہِ شرعی ایذا و تکلیف دینےکی سخت مذمت کرتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں جانوروں پر ظلم کرنے سے سخت ممانعت فرمائی گئی ہے۔ لہذا زید پر لازم ہے کہ اپنے اس ظلم سے توبہ کرے اور آئندہ باز کو زندہ پرندے ڈالنے کی بجائے یا تو اسے ایسی تربیت دے کہ شکار کے لیے اسے آزاد چھوڑ سکے یا پھر اسے ذبح شدہ گوشت کھانے کا عادی بنائے اور اگر جائز طریقے سے اس کی خوراک کا اہتمام نہیں کرسکتا، تو پھر باز  پالنا ترک کردے، تاکہ بے زبان مخلوق پر ظلم کا وبال سر نہ آئے۔

رسول کریم، رؤوف و رحیم علیہ الصلوۃ و التسلیم نے ایک چڑیا کو بھی ناحق قتل کرنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ما من انسان قتل عصفورا فما فوقها بغير حقها، الا سألہ الله عز وجل عنها، قيل: يا رسول الله، فما حقها؟ قال: یذبحها فیأكلها، ولا یقطع رأسها يرمى بها

 ترجمہ: جس انسان نے بھی کسی چڑیا یا اس سے بڑی کسی چیز کو ناحق قتل کیا، تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کے بارے میں ضرور پوچھے گا۔ عرض کی گئی: یا رسول اللہ! تو اس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ اسے ذبح کرے اور کھائے، نہ یہ کہ اس کا سر کاٹ کر یوں ہی پھینک دے۔ (سنن النسائي، ج7، ص239، حدیث 4349، مکتب المطبوعات الاسلامیہ، حلب)

پھر جانور کو ذبح کرنے میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ صحیح مسلم میں ہے:

ان الله كتب الاحسان على كل شيء، فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح وليحد احدكم شفرته، فليرح ذبيحته

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا مقرر فرما دیا ہے، تو جب تم کسی کو قتل کرو، تو اس میں بھی احسان برتو اور جب ذبح کرو، تو اچھے انداز سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنی چھری کو تیز کر لے اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچائے۔ (صحیح مسلم، ج3، ص1548حدیث1955، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

اس میں دو پرندوں کو آپس میں لڑانے کی صورت بھی ہے اور حدیث پاک میں جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا گیا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ:

نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن التحريش بين البهائم‘‘

 ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑوانے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن الترمذی، ج3، ص262، حدیث1708، دار الغرب الاسلامی، بیروت)

اِس حدیث پاک کی شرح میں حضرت علامہ ملاعلی القاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

أي عن الإغراء بينها بأن ينطح بعضها بعضا أو يدوس أو يقتل. في النهاية: هو الإغراء وتمييج بعضها على بعض كما يفعل بين الجمال والكباش والديوك وغيرها، يعني كالفيل والبقر وكما بين البقر والأسد.‘‘

 ترجمہ: (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) جانوروں کو اس پر ابھارنے سے منع فرمایا کہ وہ ایک دوسرے کو سینگ ماریں، روندیں یا مار ڈالیں۔ نہایہ میں ہے کہ ”تحریش“ سے مراد جانور کو لڑائی پر ابھارنا اور اُن کا ایک دوسرے کو مارنا ہے، جیسا کہ اونٹوں، مینڈھوں اور مرغوں وغیرہا میں یوں لڑائی کروائی جاتی ہے۔ یونہی ہاتھی اور گائے اور شیر اور گائے کی لڑائی کروائی جاتی ہے۔  (مرقاۃ المفاتیح، جلد7، کتاب الصید والذبائح، صفحہ701، دار الفکر، بیروت، لبنان)

زندہ جانور کو باندھ کر اس پر تیر اندازی کرنے کے متعلق صحیح مسلم کی روایت ہے:

مر ابن عمر بنفر قد نصبوا دجاجة يترامونها، فلما رأوا ابن عمر تفرقوا عنها، فقال ابن عمر: من فعل هذا؟ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن من فعل هذا

 ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو ایک مرغی کو باندھ کر اس پر تیر کا نشانہ لگارہے تھے۔ جب انہوں نے حضرت ابن عمر کو دیکھا تو وہاں سے ہٹ گئے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کس نے کیا ہے؟ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔“ (صحیح مسلم، ج3، ص1549حدیث1956، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

ایک خاتون کو اس وجہ سے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلاوجہِ شرعی بلی کو ایذا پہنچائی تھی۔ چنانچہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عذبت امراة في هرة سجنتها حتى ماتت، فدخلت فيها النار، لا هي اطعمتها ولا سقتها اذ حبستها، ولا هي تركتها تاكل من خشاش الارض‘‘

ترجمہ: ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس کو اس نے قید کر رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بلی (بھوکی پیاسی) مرگئی، اس وجہ سے وہ (عورت) جہنم میں داخل ہوئی، کہ نہ تو قید میں رکھے ہوئے اس نے خود اسے کھلایا پلایا، اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں کو کھا کر اپنی جان بچالیتی۔ (صحیح البخاری، ج 4، ص 176، حدیث176، دار طوق النجاۃ، بیروت)

اس حدیثِ پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ پالے ہوئے جانور کا بھی حق ہے کہ اسے کھانا پانی دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جانوروں پر ظلم بھی گناہ ہے۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ جانور پر ظلم انسان کے ظلم سے بدتر ہے کیونکہ انسان زبان والا ہے اپنے دکھ دوسروں سے کہ سکتا ہے بے زبان جانور خدا کے سوا کس سے کہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح، ج 3، ص 100، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

شکار کی تربیت دینے کے لیے باز کے سامنے زندہ پرندے ڈالنا ممنوع ہے، چنانچہ علامہ مجد الدین ابوالفضل موصلی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

ويكره تعليم البازي وغيره من الجوارح بالطير الحي يأخذه فيعذبه، ولا بأس بتعليمه بالمذبوح

 ترجمہ: باز وغیرہ جیسے شکاری جانوروں کو زندہ پرندے کے ذریعے شکار کی تربیت دینا مکروہ ہے، کہ وہ اسے پکڑ کر تکلیف دےگا۔البتہ ذبح شدہ(پرندے وغیرہ) کے ذریعے تربیت دینے میں کوئی حرج نہیں۔ (الاختيار لتعليل المختار، ج4، ص168، مطبعۃ الحلبی، القاھرہ)

اسی لئے مچھلی شکار کرنےکے لیے زندہ کیڑے کانٹے میں پرونا بھی جائز نہیں۔ فتاوی رضویہ میں ہے: ’’مچھلی کا شکار کہ جائز طور پر کریں، اس میں زندہ گھیسا(ایک کیڑا) پِرونا، جائز نہیں، ہاں مار کر ہو یا تلی وغیرہ بے جان چیز، تو مضائقہ نہیں۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ 343، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

اسی حوالے سے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’باز اور شکرے وغیرہ کو زندہ پرند پر سکھانا ممنوع ہے کہ اُس پرند کو ایذا دینا ہے، بلکہ ذَبح کئے ہوئے جانور پر سکھائے۔“

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ”بعض لوگ مچھلیوں کے شکار میں زندہ مچھلی یا زندہ مینڈکی، کانٹے میں پرو دیتے ہیں اور اس سے بڑی مچھلی پھنساتے ہیں، ایسا کرنا منع ہے کہ اُس جانور کو ایذا دینا ہے، اسی طرح زندہ گھینسا (ایک کیڑا) کانٹے میں پِرو کر شکار کرتے ہیں، یہ بھی منع ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 17، صفحہ693/ 694، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  PIN-7650

تاریخ اجراء:  17ربیع الاول1447ھ/19ستمبر2025ء