عالم کیلئے ایک جبکہ جاہل کیلئے دو گناہ ہوتے ہیں؟

عالم کا گناہ ایک جبکہ جاہل کا گناہ دو گناہ ہیں،اس کے متعلق ایک شبہ کا ازالہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک روایت کہیں پڑھی تھی کہ عالم کا گناہ ایک گنا جبکہ جاہل کا گناہ دو گناہ ہے ایک علم نہ سیکھنے کا اور ایک بے عملی کا جبکہ ایک مقام پر پڑھا کہ عالم کا گناہ زیادہ خطرناک ہے کہ علم سیکھ کر بے عملی کی طرف گیا ان میں سے درست کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مذکورہ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں، جاہل کا گناہ زیادہ ہے، عالم کا گناہ کم، لیکن یہ کم گناہ جاہل کے گناہ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔

جامع صغیر کی حدیث شریف میں ہے:

 ذنب العالم ذنب واحد، و ذنب الجاھل ذنبان

یعنی عالم کا گناہ ایک گناہ ہے اور جاہل کا گناہ دو گناہ ہیں۔ (الجامع الصغیر مع فیض القدیر، حدیث 4335، جلد 3، صفحہ 695، مطبوعہ: بیروت)

اس حدیث کے تحت فیض القدیر میں ہے:

قیل و لم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ قال: العالم یعذب علی رکوبہ الذنب، و الجاھل یعذب علی رکوبہ الذنب و ترک العلم

یعنی عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا کس لیے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم پر وبال گناہ کرنے کا ہے، اور جاہل کی پکڑ گناہ کرنے پر بھی ہوگی اور علم نہ سیکھنے پر بھی۔ (فیض القدیر، جلد 3، صفحہ 696، مطبوعہ: بیروت)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”عالم کا گناہ جاہل کے گناہ سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں بطورِ خاص علم کے بعد نافرمانی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ حضرت زیاد بن حُدَیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’کیا جانتے ہو کہ اسلام کو کیا چیز ڈھاتی (یعنی اسلام کی عزت لوگوں کے دل سے دور کرتی) ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’اسلام کو عالم کی لغزش،  منافق کا قرآن میں جھگڑنا اور گمراہ کن سرداروں کی حکومت تباہ کرے گی۔

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب علماء آرام طلبی کی بنا پر کوتاہیاں شروع کردیں، مسائل کی تحقیق میں کوشش نہ کریں اور غلط مسئلے بیان کریں، بے دین علماء کی شکل میں نمودار ہو جائیں ، بدعتوں کو سنتیں قرار دیں، قرآن کریم کو اپنی رائے کے مطابق بنائیں اور گمراہ لوگوں کے حاکم بنیں اور لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کریں تب اسلام کی ہیبت دلوں سے نکل جائے گی جیساکہ آج ہورہا ہے۔ بعض نے فرمایا کہ عالم کی لغزش سے مراد ان کا فسق و فجور میں مبتلا ہوجانا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 264، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2266

تاریخ اجراء: 01ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/29اپریل2025ء