بے عمل عالم امت کے لئے سب سے بڑا خطرہ

امت کو سب سے زیادہ خطرہ بے عمل عالم سے ہے

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا یہ حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے، جو زبان دان ہو۔“؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جی ہاں! سوال میں ذکر کردہ حدیث پاک مختلف کتب احادیث میں مختلف الفاظ سے موجود ہے۔

 ذیل میں یہ حدیث اور اس کا معنی شروحات حدیث سے پیش کیا جارہا ہے:

مسند احمد میں ہے

”عن عمر بن الخطاب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:  إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان“

ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا: بے شک میری امت پر مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے، وہ ہے ایسا منافق جو زبان کا بڑا ماہر ہو۔ (مسند احمد، جلد1، صفحہ 289، حدیث: 143، موسسۃ الرسالۃ)

الاحادیث المختارۃ میں یوں مروی ہے:

”عن أبي عثمان النهدي قال سمعت عمر بن الخطاب رحمه الله وهو على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثر من عدد أصابعي هذه وهو يقول إن أخوف ما أخاف على هذه الأمة المنافق العليم قيل وكيف يكون المنافق العليم قال عالم اللسان جاهل القلب والعمل“

ترجمہ: ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو منبرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر (اتنی بار جتنی میری ان انگلیوں کی تعداد ہے) یہ فرماتے ہوئے سنا: بے شک اس امت پر مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے، وہ ہے علیم منافق۔پوچھا گیا منافق علیم کیسے ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وہ زبان کا عالم ہوتا ہے، لیکن دل اور عمل کے اعتبار سے جاہل ہوتا ہے۔ (الاحادیث المختارۃ، جلد1، صفحہ344، حدیث: 236، مطبوعہ: بیروت)

تیسیر شرح جامع صغیر میں ہے

”(كل منافق عليم اللسان) أي عالم للعلم منطلق اللسان به لكنه جاهل القلب والعمل فاسد العقيدة مغر للناس بشقاشقه وتفحصه وتقعره في الكلام“

 ترجمہ: (ہر وہ منافق جو زبان کا ماہر ہو) یعنی علم رکھنے والا اور اسے زبان سے خوب بیان کرنے والا، مگر دل اور عمل کے اعتبار سے جاہل ہوگا۔ اس کا عقیدہ فاسد ہوگا، اور وہ اپنی چرب زبانی، بناوٹ اور بولنے میں گہرائی و بناوٹی فصاحت کے ذریعے لوگوں کو دھوکے میں ڈالتا ہوگا۔ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر، جلد1، صفحہ52، مكتبة الإمام الشافعي، الرياض)

فیض القدیر شرح جامع صغیر میں ہے

”(كل منافق عليم اللسان) أي كثير علم اللسان جاهل القلب والعمل اتخذ العلم حرفة يتأكل بها ذا هيبة وأبهة يتعزز ويتعاظم بها يدعو الناس إلى الله ويفر هو منه ويستقبح عيب غيره ويفعل ما هو أقبح منه ويظهر للناس التنسك والتعبد ويسارر ربه بالعظائم إذا خلا به ذئب من الذئاب لكن عليه ثياب فهذا هو الذي حذر منه الشارع صلى الله عليه وسلم هنا حذرا من أن يخطفك بحلاوة لسانه ويحرقك بنار عصيانه ويقتلك بنتن باطنه وجنانه“

ترجمہ: ”ہر وہ منافق جو زبان کا بڑا عالم ہو ‘‘یعنی ایسا شخص جس کی زبان پر بہت سا علم ہو مگر دل اور عمل کا جاہل ہو، اس نے علم کو روزی کمانے کا ذریعہ بنالیا ہو، لوگوں میں رعب اور وجاہت پیدا کرنے کا ہتھیار بنالیا ہو، وہ دوسروں کو اللہ تعالی کی طرف بلاتا ہو، لیکن خود اللہ سے بھاگتا ہو، دوسروں کے عیب برے سمجھتا ہو، مگر خود اس سے بھی بڑے گناہ کرتا ہو، لوگوں کے سامنے عبادت گزاری اور تقویٰ ظاہر کرتا ہو، لیکن خلوت میں اپنے رب کے ساتھ بڑے بڑے گناہ کرتا ہو، وہ دراصل انسانی کپڑوں میں ایک بھیڑیا ہے، یہی وہ شخص ہے جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا، تاکہ وہ اپنی میٹھی باتوں سے دھوکا نہ دے، اپنی نافرمانی کی آگ سے نہ جلادے، اور اپنے گندے باطن سے لوگوں کو ہلاک نہ کردے۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، جلد2، صفحہ419، المكتبة التجارية الكبرى، مصر )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4554

تاریخ اجراء:26 جمادی الثانی1447ھ/18دسمبر2025ء