
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
گناہوں کو منحوس سمجھنےاور کہنے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
گناہ کو منحوس سمجھنا اور کہنا بالکل درست ہے۔ اور جس وقت، دن یا مہینے میں کوئی گناہ کیا جائے تو وہ وقت گناہ کے اعتبار سے گناہگار کے حق میں منحوس ہے، البتہ گناہ کی وجہ سے گناہ گار مسلمان کو منحوس نہیں کہہ سکتے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”مَعصِیَت بجائے خود نَحس ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ223 ۔ 224، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
تفسیر صراط الجنان میں ہے: ” کوئی دن یا مہینہ حقیقی طور پر منحوس نہیں البتہ جس وقت، دن یا مہینے میں کوئی گناہ کیا جائے یا اس میں گناہگاروں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو وہ گناہ اور عذاب کے اعتبار سے گناہگار کے حق میں منحوس ہے، جیسا کہ حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: زمانے کے اجزا ء اپنی اصل حقیقت میں برابر ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں البتہ ان اجزاء میں جو نیکی یا گناہ واقع ہو اس میں فرق کی وجہ سے زمانے کے اَجزاء میں فرق ہوتا ہے، توجمعہ کا دن نیک کام کرنے والے کے اعتبار سے سعادت مندی کا دن ہے اور گناہ کرنے والے کے اعتبار سے(اس کے حق میں ) منحوس ہے۔ “ ( صراط الجنان، جلد 6، صفحہ 618، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-2128
تاریخ اجراء: 02 شعبان المعظم1446 ھ/01فروری 2520 ء