Baghair Dawat Shadiyon Mein Khana Khaya To, Tu Is Ka Kya Kaffara Hoga?

 

بغیر دعوت شادیوں میں کھانے کھایا ہو، تو اس کا کیا کفارہ ہوگا؟

مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1951

تاریخ اجراء:07ربیع الثانی1446ھ/11اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص بغیر دعوت کے شادیوں اور ولیموں میں کھانا کھانے جاتا تھا مگر اب اسے نے اس گناہ سے توبہ کرلی ہے تو اب اس کو اس کے کفارے کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جن جن شادیوں میں بلا اجازتِ شرعی کھانا کھایا ، ان لوگوں کو کھانے کی رقم ادا کرے یا ان سے معاف کروائے۔ اگر سب کا معلوم نہیں تو جن جن کا کنفرم یاد ہے کہ فلاں کی دعوت اس طرح ناجائز طریقے سے کھائی تھی ، ان سے معافی تلافی کرنی ہو گی ۔ اصل مالکان کا انتقال ہو چکا ہو تو ان کے ورثا سے معافی تلافی کرنی ہوگی۔   مکمل کوشش کے باوجود   جو لوگ نہ مل سکیں یا یاد ہی نہ ہو کہ مزید کس کس کی ایسی ناجائز دعوت کھائی  تھی تو ان کی طرف سے اتنی رقم مالک کی طرف سے صدقہ کر دے ۔ اگر زندگی میں کبھی کسی فرد کا یقینی طور پر یاد آ گیا کہ فلاں کی دعوت کھائی تھی مگر معافی تلافی کی صورت نہیں کی تو اس سے معافی تلافی کرنی ہو گی ۔ اگر وہ صدقہ کرنے کو جائز رکھے تو ٹھیک ورنہ مانگنے پر اس کو اس کی رقم دینی ہو گی۔  نیز اللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ بہر حال کرنی ہو گی۔

   مشکوٰۃ المصابیح میں بحوالہ سنن ابی داؤد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ  واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ”من دعي فلم يجب فقد عصى الله ورسوله ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا “یعنی جسے دعوت دی گئی،اس نے قبول نہ کی، تو بے شک اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور جو بغیر دعوت کے داخل ہوا، تو وہ چور ہو کر گھسا اور غارت گری کر کے نکلا۔

   اس حدیث کے تحت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”(دخل سارقا )لأنه دخل بغير إذنه فيأثم كما يأثم السارق في دخول بيت غيره (وخرج مغيرا) أي ناهبا غاصبا يعني وأن أكل من تلك الضيافة فهو كالذي يغير أي يأخذ مال أحد غصبا“ یعنی(وہ چور بن کر داخل ہوا)کیونکہ وہ  مالک کی اجازت کے بغیرداخل ہوا، پس  یہ گناہگار ہوگا، جیسے چور دوسرے کے گھر میں داخل ہونے کی وجہ سے گناہگار ہوتا ہے۔(اور وہ غارت گری کر کے نکلا)یعنی لوٹنے والا غاصب بن کر نکلا۔ مراد یہ ہے کہ اگر  اس نے اس دعوت سے  کچھ کھایا، تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو غارت گری کرتا یعنی کسی کا مال ناجائز طریقہ سےچھین لیتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح،حدیث 3222، جلد 6، صفحہ 343۔344، مطبوعہ:بیروت)

   امیراہلسنت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:”ولیمہ ہو یا کوئی اور خصوصی دعوت ، بغیر دعوت کے اس میں گھس جانا اور کھالینا گناہ، حرام و جہنم میں لے جانے والاکام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جو بغیر بلائے (یعنی دعوت کے بغیر)گیا وہ چور ہو کر گھسا اور غارت گری کر کے نکلا۔ “(دعوتوں کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 6، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم