Bahu Ke Liye Apne Susar Ka Jutha Khana Pina

بہو کے لیے  اپنے سسر کا جوٹھاکھاناپینا

مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3444

تاریخ اجراء:10رجب المرجب1446ھ/11جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ   کیا  بہو   اپنے سسر کا  جوٹھا  کھا، پی  سکتی  ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بہو اپنے سسر کا جوٹھا  کھا، پی  سکتی  ہے،   اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ  بطور لذت و شہوت نہ  ہو  اور ا س سے شہوت  ولذت حاصل کرنا مقصود ہو تو  مکروہ  وناجائز ہے۔

   البحر الرائق میں علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :”يكره سؤر المرأة للرجل وسؤره لها ۔۔۔الكراهة المذكورة إنما هو في الشرب لا في الطهارة“ ترجمہ:  عورت کا جوٹھا مرد کے لئے اور مرد کا جوٹھا عورت کے لئے مکروہ ہے۔۔۔۔ یہ مذکورہ کراہت  جوٹھا پینے میں ہے نہ کہ  اس سے پاکی حاصل کرنے میں۔

   (یکرہ)کے تحت منحۃ الخالق میں علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: قال الرملي أقول: يجب تقييده بغير الزوجة و المحارم“ علامہ خیر الدین رملی علیہ الرحمہ نے فرمایا: میں  کہتا ہوں  کہ اسے  خاص کرنا  واجب  ہے زوجہ اور  محارم کے علاوہ کے ساتھ۔

   (فی الشرب)کے تحت  فرماتے ہیں :”أي ليس لعدم طهارته بل للاستلذاذ الحاصل للشارب إثر صاحبه“ یعنی  مکروہ  ہونا   اس کے ناپاک  ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ   بطور لذت پینے کی وجہ سے ہے جو  پینے والے کو  اس شخص کے بچے ہوئے سے حاصل ہوگی۔(البحر الرائق و منحۃ الخالق، ج1، ص133، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

   رد المحتار میں علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :”والذي يظهر أن العلة الاستلذاذ فقط، ويفهم منه أنه حيث لا استلذاذ لا كراهة ولا سيما إذا كان يعافه“ ترجمہ:  اور  جو   بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ علت  صرف  بطور لذت  استعمال کرنا  ہے  اور اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر  لذت نہ ہو  تو کراہت نہیں بالخصوص  اس جگہ  کہ جہاں  گھن  آتی  ہو۔(رد المحتار، ج1، ص222، دار الفکر بیروت)

   بہار شریعت  میں صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :” مرد کو غیر عورت کا اور عورت کو غیر مرد کا جھوٹا اگر معلوم ہو کہ فلانی یا فلاں کا جھوٹا ہے بطور لذّت کھانا پینا مکروہ ہے مگرا س کھانے، پانی میں کوئی کراہت نہیں آئی اور اگر معلوم نہ ہو کہ کس کا ہے یا لذّت کے طور پرکھایا پیا نہ گیا تو کوئی حَرَج نہیں بلکہ بعض صورتوں میں بہتر ہے جیسے با شرع عالم یا دیندار پیر کا جھوٹا کہ اسے تبرّک جان کر لوگ کھاتے پیتے ہیں۔(بہار شریعت، ج1، حصہ2، ص341، مطبوعہ  مکتبۃ  المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم