
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا کسی دوسرے آدمی کا انٹر نیٹ بلا اجازت استعمال کر کے بیان یا نعت وغیرہ سن سکتے ہیں؟ یا وظیفہ دیکھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
کسی کا نیٹ اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا، جائز نہیں ہے، چاہے اس سے نعت یا بیان وغیرہ سنا جائے یا کچھ اور۔ مسند ابی یعلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لايحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه.
ترجمہ: کسی مسلمان کامال دوسرے کو حلال نہیں، مگر اس کی خوش دلی سے۔(مسند ابی یعلی، جلد 03، صفحہ 70، حدیث 1570، دار الحدیث، قاھرہ)
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے
( لا يحل مال امرئ) أي: مسلم أو ذمي (إلا بطيب نفس) أي: بأمر أو رضا منه
ترجمہ: کسی شخص کےلیے دوسرے مسلمان یا ذمی کا مال اس کے حکم یا رضامندی کے بغیر حلا ل نہیں ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 05، صفحہ 1974،دار الفکر، بیروت)
ردالمحتار میں ہے
لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی
ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب شرعی کے کسی کا مال لے۔ (ردالمحتار، کتاب الحدود باب التعزیر، ج 3، ص 178، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3969
تاریخ اجراء: 02 محرم الحرام 1447ھ / 28 جون 2025ء