Baap Ke Chori Shuda Pani Ka Connection Se Aulad Ka Pani Istemal Karna

باپ نے پانی کا کنکشن چوری کا لگایا، تو اولاد پانی استعمال کر سکتی ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-551

تاریخ اجراء:20 ربيع الاول1446ھ/25 ستمبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ میرے والد نے گھر میں چوری کے پانی کا کنکشن لگایا ہوا ہے، جس سے ہمارے گھر میں  پینے کا پانی آتا ہے،جب میں چھوٹی تھی تو مجھے معلوم نہیں تھا، اب بڑی ہونے کے بعد جب مجھے معلوم ہوا ہے، تو میں نے اپنے والد کوکہا ہے  کہ یہ چوری کا کنکشن ہٹا کر صحیح کنکشن لگائیں، مگر  میرے بہت منع کرنے کے باوجود بھی   میرے والد نہیں  مان رہے ہیں، اب ایسی صورت میں  کہ جب  میرے گھر میں پینے کے  پانی کا کوئی اور انتظام نہیں ہے اور مجھے مجبوری میں وہ پانی پینا پڑتا ہے، تو کیا اس صورت میں مجھ پر بھی گناہ  ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورت مسئولہ میں آپ کے لیے اس پانی  کا استعمال شرعاً حرام نہیں،کیونکہ پانی  ایک قدرتی وسیلہ ہے  جس میں عام  عوام  کا مشترکہ حق  ہوتا ہے،البتہ گورنمنٹ کی طرف سے چونکہ عوام کو قانونی طریقہ سےپانی  کے استعمال کاپابند کیا جاتا ہے  تا کہ ایک منظم اور منصفانہ طریقے سے    پانی   کو  استعمال کیا    جاسکے اور عوام تک پانی  پہنچانے میں ہونے والے اخراجات کو عوام سے  ماہانہ طور پر   وصول کیا جاسکے، لہذاغیر قانونی طریقے   سے    پانی  کا یہ حصول خلافِ قانون ہونے کی وجہ سے   شرعاً بھی ناجائزو گناہ ہوگا، کیونکہ  اس  میں پکڑے جانے  پر   اپنے  آپ کو ذلت ورسوائی پر پیش کرنا ہے جو  کہ شرعاً  جائز نہیں  ہے، مگر ظاہر ہے کہ قانونی طریقے سے پانی  کا حاصل  کرنا   گھر کے سربراہ  کی ذمہ داری ہوتی ہے، لہذا آپ پر  اس کا کوئی   گناہ نہیں ہوگا، البتہ آپ کو چاہئے کہ آپ  اپنی طاقت اور قدرت کے مطابق والد صاحب کو موقع  بہ موقع  سمجھاتی رہیں اور  اس  خلاف قانون  کا م سے  باز آنے کی  درخواست کرتی  رہیں۔

   غیر قانونی کام کا ارتکاب شرعاً بھی ناجائز ہے،چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ  علیہفتاوی رضویہ میں  ارشاد  فرماتےہیں: ’’کسی ایسےامرکاارتکاب جوقانوناً ،ناجائز ہو اورجرم کی حدتک پہنچے شرعاً بھی ناجائزہوگاکہ ایسی بات کےلیےجرمِ قانونی کامرتکب ہو کر اپنےآپ کوسزا اورذلت کے لئے پیش کرناشرعاً بھی روا نہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ ازالہ منکر پر قدرت نہ ہوتو زبان سے منع کردے اور اس میں بھی فتنہ وفساد ہوتو دل سے بُراجانے،پھر اُن کے فعل کا اس سے مطالبہ نہیں، قال اللہ تعالٰی ﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾(کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ت) و قال اللہ تعالٰی﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ﴾ اے اہل ایمان!تم پر اپنی جان لازم ہے تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا جبکہ تم ہدایت یافتہ ہو۔ وقال صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم: ’’من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، و ذلک اضعف الایمان‘‘ تم میں سے جب کوئی بُرائی دیکھے، تو ہاتھ سے اُسے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے منع کرے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو،تو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد5، صفحہ406، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم